سابق بیوروکریٹس اور مسلم دانش وروں پر مشتمل ایک وفد نے حال ہی میں دائیں بازوں کی ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت سے نئی دہلی میں ملاقات کی ہے۔
اگرچہ یہ ملاقات ایک ماہ قبل نئی دہلی میں آر ایس ایس کے دفتر میں 22 اگست کو ہوئی تھی لیکن اسے راز میں رکھا گیا تھا۔ البتہ یہ خبر منگل کو میڈیا میں لیک ہو گئی تھی۔ موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے والے وفد کے ذرائع کے مطابق وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ معاملہ میڈیا میں آئے اور ان کے اس قدم کا غلط مطلب نکالا جائے۔
اطلاعات کے مطابق اس ملاقات کے دوران بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سماجی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام سے متعلق مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔
موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے والے وفد میں سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور دہلی کے سابق لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سابق وائس چانسلر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ضمیر الدین شاہ، سابق رکنِ پارلیمنٹ شاہد صدیقی اور صنعت کار سعید شیروانی بھی شامل تھے۔
ملاقات کے دوران ملک میں امن و امان کے قیام اور عوام کے درمیان بھائی چارے کے فروغ سمیت کئی ایشوز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسلمانوں کے وفد کے مطابق اس وقت ملک میں جو ماحول ہے اس سے مذہبی اتحاد کمزور پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اس اتحاد کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں گفتگو کی ہے۔
وفد سے بات چیت کے دوران موہن بھاگوت کے علاوہ آر ایس ایس میں دوسری اہم پوزیشن رکھنے والے کرشنا گوپال بھی موجود تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ گفتگو کھلے ماحول میں ہوئی اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ موہن بھاگوت نے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے آر ایس ایس سے وابستہ چار افراد کو مقرر کیا ہے۔
SEE ALSO: کیا راہل گاندھی کا تمل ناڈو سے کشمیر تک پیدل مارچ پارٹی کی قسمت بدل سکے گا؟ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں نوپور شرما کے متنازع بیان کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے نفرت انگیز ماحول سمیت کئی متنازع امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق گیان واپی مسجد کے تنازع پر بھی گفتگو ہوئی لیکن وفد کے ذرائع نے میڈیا رپورٹس کی تردید کی اور بتایا کہ اس وقت یہ معاملہ گرم نہیں تھا اس لیے اس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
آر ایس ایس کو مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو آر ایس ایس سے جو شکایات ہیں ان پر بات ہوئی۔ فریقین نے اس سلسلے میں اپنا اپنا مؤقف سامنے رکھا ہے۔
’ملاقات خفیہ نہیں تھی‘
سابق رکنِ پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نوپور شرما کے متنازع بیان کے بعد پیدا شدہ حالات کے تناظر میں ہم لوگوں نے موہن بھاگوت کو ایک خط لکھ کر ملاقات کا وقت مانگا تھا جس پر انہوں نے دہلی آنے پر ملاقات کا عندیہ دیا تھا۔ لہٰذا جب وہ دہلی آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ کوئی خفیہ نہیں بلکہ کھلی ملاقات تھی۔ ملاقات کے دوران باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر بھی غور کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ موہن بھاگوت چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں مذاکرات کے ایشوز پر اتفاق رائے ہو جائے۔ شاہد صدیقی کے بقول ہم بھی وسیع تر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے میں سرکردہ مسلمانوں سے مشاورت جاری ہے اور سب نے اس قدم کو سراہا ہے۔
اس سے قبل بھی آر ایس ایس کے سربراہ سے سرکردہ مسلم شخصیات کی ملاقات ہوتی رہی ہے۔ جمعیت علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے گزشتہ برس ان سے ملاقات کی تھی اور ملک کے موجودہ ماحول پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔
ملاقات کے بعد مولانا مدنی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ موہن بھاگوت کے پاس آر ایس ایس جیسی ایک مضبوط تنظیم ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت آر ایس ایس مسلمانوں کے تعلق سے نرم گوشہ رکھتا ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے موقف میں نرمی لانی چاہیے۔ جمعیت علما ہند کے جنرل سیکریٹری اور سابق رکن پارلیمان مولانا محمود مدنی بھی آر ایس ایس کے تعلق سے مفاہمانہ بیانات دیتے رہے ہیں۔
SEE ALSO: گاندھی کا قاتل بھارت میں کس کا ہیرو؟شاہد صدیقی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ سماج کے بڑے حصے پر آر ایس ایس کے اثرات ہیں لہٰذا ہمیں ان سے گفت و شنید کے راستے تلاش کرنے ہوں گے تاکہ آپس کی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔ جب تک مذاکرات نہیں ہوتے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
کیا بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوگی؟
آر ایس ایس کے سربراہ اپنی تقریروں میں ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس پانچ جولائی کو غازی آباد میں ایک کتاب کے اجرا کے موقع پر کہا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہے، وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ اس پر بھی زور دیتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کے اجداد ہندو تھے اس لیے وہ بھارتی مسلمانوں کو ہندو مانتے ہیں۔ تاہم وہ طریقہ عبادت میں فرق کی بنیاد پر کسی سے امتیاز کو روا نہیں سمجھتے۔
مبصرین کے مطابق موہن بھاگوت کے بیانات بہت حوصلہ افزا ہوتے ہیں لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ بھارتی مسلمانوں کو بھی ہندو سمجھتے ہیں تو پھر معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ تاہم مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آر ایس ایس کے رہنماؤں سے مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
آر ایس ایس کے موضوع پر متعدد کتب کے مصنف اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سیکریٹری مولانا عبد الحمید نعمانی مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کا موقف ہے کہ ایسے مذاکرات کا کوئی نتیجہ اسی وقت نکل سکتا ہے جب خود آر ایس ایس ایسا چاہے۔ ان کے مطابق ایسا نہیں لگتا کہ اس وقت جو لوگ بات کر رہے ہیں انہوں نے بات چیت کے طریقۂ کار اور کن امور پر بات کرنی ہے، اس سلسلے میں کوئی تیاری کی ہے۔
SEE ALSO: کیا گاندھی کو پاکستان سے محبت کے باعث قتل کیا گیا؟وہ خاص طور پر 2004 میں آر ایس ایس کے سابق سربراہ کے ایس سدرشن کے زمانے میں ہونے والی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کے ایس سدرشن نے ہم لوگوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات کو قابل غور قرار دیا تھا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات میں مسلمانوں کی طرف سے ان لوگوں کو آگے آنا چاہیے جو آر ایس ایس کی تاریخ، اس کے نظریے اور طریقۂ کار سے واقف ہوں۔ اس سے قبل بھی مذاکرات ہوئے ہیں لیکن آر ایس ایس کی جانب سے دوسری باتیں جیسے کہ مسلمان اس ملک میں حملہ آور کی حیثیت سے آئے تھے، وغیرہ پیش کی جاتی ہیں اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
ان کے خیال میں اس وقت جو لوگ بات کر رہے ہیں، ایسا نہیں لگتا کہ وہ آر ایس ایس کی تاریح اور اس کے نظریے سے پوری طرح واقف ہیں۔ آر ایس ایس سے مذاکرات میں ایسے لوگوں کو شامل کرنا ہوگا جو اس کے قریب ہوں اور جو دباؤ میں آکر بات کرنے کے بجائے برابری کی سطح پر بیٹھ کر بات کریں۔