بھارت کی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے حجاب کو اسلام کا لازمی جزو نہ ماننے اور تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے سے بھارت کے مسلمانوں میں اضطراب کی کیفیت ہے اور بھارتی مسلمانوں کا نمائندہ فورم ‘آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ’ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے جا رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے ایک اہم اجلاس میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں کہا کہ اس اجلاس میں بورڈ کی قانونی کمیٹی کے کنویئر سینئر وکیل یوسف حاتم مچھالہ، قانونی کمیٹی کے وکیل ایڈووکیٹ ایم آر شمشاد، فضیل احمد ایوبی اور نیاز احمد فاروقی سمیت کئی وکلا نے شرکت کی۔
بیان کے مطابق اجلاس میں عدالتی فیصلے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ فیصلے میں بہت خامیاں ہیں۔ اس میں فرد کی آزادی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ عدالت نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی کہ کون سا عمل اسلام کا لازمی جزو ہے اور کون سا نہیں۔
پرسنل لا بورڈ کے مطابق قانون کے ماہرین ہی قانون کی تشریح کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ لہٰذا شریعت سے متعلق کسی بھی قانون کے معاملے میں علما کی رائے کو اہمیت حاصل ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ فیصلے میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس لیے ایسے کئی نکات ہیں جن کی بنیاد پر بورڈ اس فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے ساتھ ہی بورڈ نے مسلم اسکالرز، سیاسی رہنماؤں، دانشوروں، ماہرین تعلیم اور مسلم تاجر برادری سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کریں جہاں اسلامی ماحول اور اخلاقی اقدار کے درمیان معیاری تعلیم کا انتظام ہو۔
چیف جسٹس ایک علیحدہ پٹیشن پر سماعت کو تیار
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بورڈ نے اپنی میٹنگ میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں قانونی ماہرین پٹیشن تیار کر رہے ہیں اور چند روز کے اندر اسے چیلنج کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والی طالبات میں سے ایک طالبہ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اگلے ہفتے سماعت کے لیے اسے فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے اس پر فوری سماعت کی اپیل کی تھی۔
’عدالت نے ذاتی آزادی چھین لی‘
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ بھارت کے دستور نے ہر شہری کو ذاتی آزادی فراہم کی ہے۔ جسے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نے چھین لیا ہے۔ لہٰذا جو پٹیشن تیار کی جا رہی ہے اس میں اس ایشو کو اٹھایا جائے گا۔
ان کے مطابق ملک کا آئین کہتا ہے کہ مذہب، رنگ، نسل، زبان، جائے پیدائش، وغیرہ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جائے گی البتہ اس فیصلے میں ایک مخصوص فرقے کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ عدالت کی اس بات کے جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالت کیسے طے کرے گی کہ کون سا عمل اسلام کا لازمی جزو ہے اور کون سا نہیں ہے؟ عدالت کے پاس اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کا کوئی براہِ راست ذریعہ نہیں ہے۔ وہ ترجمے کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق مذہب کے اسکالرز ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کون سی چیز اسلام میں لازمی ہے اور کون سی نہیں ہے۔
’حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے‘
ان کے مطابق بورڈ عدالت کو یہ بھی بتانے کی کوشش کرے گا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی خاتون حجاب کی پابندی نہیں کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاب اسلام میں ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نماز اسلام کا لازمی جزو ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نماز کی پابندی نہیں کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے یہ رائے قائم کی کہ جو خواتین حجاب کی پابندی نہیں کرتیں وہ اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہوتیں۔ اس لیے حجاب لازمی جزو نہیں ہے۔ ان کے بقول عدالت کی یہ رائے غلط ہے کیوں کہ جو خواتین حجاب کی پابندی نہیں کرتیں وہ بقول ان کے گناہ کی مرتکب تو ہوتی ہیں لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتیں۔
بورڈ کے رکن نے کہا کہ سماعت کے دوران عدالت نے یہ سوال خود اٹھایا اور بار بار پوچھا کہ کیا حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے؟ اس پر درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے جواب میں بار بار کہا کہ ہم اس معاملے میں جانا نہیں چاہتے کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے یا نہیں بلکہ ہمارا کہنا ہے کہ یہ ہمارا آئینی حق ہے۔
ان کے مطابق وکلا نے اس بات پر زور دیا کہ اسے مذہب کی بنیاد پر دیکھنے کے بجائے آئین میں دی گئی آزادی کے آئینے میں دیکھا جائے لیکن عدالت نے مذہب کی بنیاد پر معاملے کو دیکھا اور کہہ دیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ جب کہ عدالت کی یہ بات بقول ان کے سرے سے غلط ہے۔
بورڈ کی قانونی کمیٹی کے ذرائع نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دو ایک روز کے اندر فیصلے کو چیلنج کر دیا جائے گا۔
ذرائع نے کہا کہ یہ معاملہ مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ ایک شہری کی بنیادی آزادی کا معاملہ ہے۔ یہ دو وسیع نکات ہیں جن کی بنیاد پر پٹیشن تیار کیا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی برقرار؛ 'حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں'، کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہماہرین کے مطابق عدالت نے بنیادی آزادی کے معاملے کو الگ تھلگ رکھ دیا ہے۔ اس نے مذہبی آزادی پر بھی جو بحث کی ہے وہ نامکمل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں مذہبی آزادی کا جو تصور ہے اس کا اظہار اس فیصلے میں نہیں ہوتا۔
ججز کی سیکیورٹی میں اضافہ
دریں اثنا کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی نے اتوار کو بنگلور میں کہا کہ فیصلہ سنانے والے ججز کے خلاف تمل ناڈو میں مبینہ طور پر دیے جانے والے تضحیک آمیز بیانات اور دھمکیوں کے پیش نظر ججز کی سیکیورٹی میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ ججز کو دھمکیاں دینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے۔
دو افراد گرفتار
رپورٹس کے مطابق پولیس نے مبینہ طور پر ججز کو دھمکیاں دینے کے سلسلے میں دو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ایک شخص رحمت اللہ کو ترونل ویلی سے اور ایس جمال محمد عثمانی کو تھنجاور سے گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کی رات میں ہوئی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ دونوں تمل ناڈو توحید ٹرسٹ کے عہدے دار ہیں۔
SEE ALSO: ہندوستان: مسلمان خواتین صحافیوں کےلیے بڑھتا ہوا خطرہرپورٹس کے مطابق تمل ناڈو اور کرناٹک میں ان کے خلاف متعدد شکایات کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس معاملے میں کئی افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
تمل ناڈو میں متعدد مسلم تنظیموں کی جانب سے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ نشریاتی ادارے ’نیوز 18‘ کے مطابق ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں رحمت اللہ کو مبینہ طور پر لوگوں کو ججز کے خلاف ورغلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تمل ناڈو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر اور سابق آئی پی ایس افسر کے اناملائی نے مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایم این بھنڈاری کے نام ایک خط میں اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر کرناٹک حکومت حجاب فیصلے کے خلاف امتحانات کا بائیکاٹ کرنے والی طالبات کو دوبارہ امتحان دینے کی اجازت پر غور کر رہی ہے۔ تاہم ان کو حجاب میں امتحان دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب کہ کرناٹک کے وزیرِ قانون نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ اگر طلبہ نے جان بوجھ کر امتحانات کا بائیکاٹ کیا ہے تو انہیں دوبارہ امتحان میں بیٹھنے کی سہولت نہیں دی جائے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق کم از کم ڈھائی سو طالبات نے حجاب کی اجازت نہ دینے کے خلاف بطور احتجاج امتحانات کا بائیکاٹ کیا ہے۔