لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی کا کوئی مذہبی جواز نہیں: مسلم اسکالرز

طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کی ہوئی ہے (فائل فوٹو)

افغانستان میں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی کے بارے میں مسلم اسکالرز اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صنفی بنیاد پر تعلیم پر پابندی کا کوئی مذہبی جواز نہیں ہے۔

طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی کو مذہبی اصولوں کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

مسلم دنیا کی جانب سے افغان لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی ہٹانے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے باوجود طالبان کے رہنماہبت اللہ اخوندزادہ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

طالبان حکومت کی وزارتِ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر لڑکیوں کے تمام اسکول دوبارہ کھولنے کو تیار ہیں، لیکن طالبان کے امیر المومنین نے افغان اسلامی علما سمیت دیگر لوگوں کے نظرِ ثانی کے مطالبات کو نظر انداز کردیا ہے۔

منگل کو کابل میں علما کے ایک گروپ نے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام خواتین کے حقوق کا علم بردار ہے جس میں تعلیم اور کام کرنے کا حق بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ ایک ماہ سے بھی کم وقت میں علما کی جانب سے اس طرح کا یہ دوسرا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ معروف اسکالرز کی جانب سے بھی انفرادی طور پر خواتین کے لیے کام اور تعلیم کی حمایت میں اسلامی قانونی فقہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہی مطالبات کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیے لڑکیوں کے اسکولز کی بندش پر خواتین کا احتجاج،'طالبان افغان خواتین کو دبا نہیں سکتے'

افغانستان کے نامور اسلامی اسکالر شیخ فقیر اللہ فائق نے گزشتہ ماہ ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ خواتین کی تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ان کے بقول وہ یہ بات کئی دیگر مسلمان اسکالرز کی طرف سے کہہ رہے ہیں۔

طالبان کے دورِ حکومت میں انتہائی طاقت ور رہنما ہبت اللہ اخوندزادہ نے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی کوئی وجہ یا جواز نہیں بتایا ہے۔ لیکن ان کے مختصر تحریری فرمان میں وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کے فیصلے سختی سے اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم سے لے کر کئی مسلم ممالک میں مذہبی اسکالرز کے گروپس نے مسلمانوں کی آواز بنتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔

روحانیت اور مساوات میں ویمنز اسلامک انیشی ایٹو کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیزی خان کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا کوئی اسلامی جواز نہیں۔

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اسلام علم کے حصول پر بہت زور دیتا ہے۔

شمالی امریکہ کی اسلامک سوسائٹی کے ترجمان ہارون امتیاز نے وی او اے کو بتایا کہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر طالبان کی حالیہ پابندی ناقابلِ قبول ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے سرکردہ رہنما کی جانب سے پابندی پر ردِعمل نہ دینا ان کے اسلامی فرائض اور ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اسلامی ریاست کے سربراہ کے طور پر طالبان کے رہنما کو اپنے لوگوں اور بڑی مسلم برادری سے مشورہ کرنا چاہیے اور ان کی سننی چاہیے۔

ڈیزی خان نے کہا کہ طالبان حکومت کو ان لوگوں سے مشورہ لینا چاہیے جو روزانہ عوام کی خدمت کرتے ہیں، ایسے علما جو اپنے لوگوں کی حالت زار سمجھتے ہیں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں جو لوگوں کو درپیش سماجی مشکلات کو سمجھتی ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان رہنما کی لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت افغانستان کے پدرانہ قبائلی روایات کی عکاسی ہو سکتی ہے۔