برطانیہ میں جمعرات کو ہونے والے عام انتخابات میں نئےچہروں کے پارلیمان میں نمودار ہونے کا امکان ہے۔ ان نئے چہروں میں کئی مسلمان خواتین بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
اعداد و شمارظاہر کرتے ہیں کہ عام انتخابات میں برطانوی مسلمان خواتین امیدواروں کی ریکارڈ تعداد حصہ لے رہی ہے۔
سنہ 2010 میں پہلی بار تین مسلمان خواتین برطانوی پارلیمان کی رکن بنی تھیں جن میں برمنگھم سے شبانہ محمود، بولٹن مانچسٹر سے یاسمین قریشی اور لندن بیتھنل گرین سے روشن آراء شامل ہیں جنھوں نے لیبر کی طرف سے کامیابی حاصل کی تھی۔
امینہ لون: امینہ لون لنکا شائر سے لیبر کی نامزد امیدوار ہیں۔ وہ لنکاشائر میں 'مورکیمب اینڈ لوئنس ڈیل' کے انتخابی حلقے سے لیبر کی ٹارگٹ نشست نمبر 14 پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ اس حلقے سے ان کے مد مقابل کنزرویٹو کے مضبوط امیدوار اور رکن پارلیمان ڈیوڈ تھامس مورس ہیں جو اس انتخابات میں اپنی نشست کا دفاع کر رہے ہیں۔
ایش کروفٹ کےتازہ ترین سروے پول میں امینہ لون کو چھ پوائنٹ سے سبقت حاصل ہے۔ سروے کے مطابق امینہ کے حق میں 42 فیصد ووٹ متوقع ہیں جبکہ ڈیوڈ مورس کے لیے 36 فیصد ووٹرز نے حمایت کا اظہار کیا ہے۔
امینہ لون پچھلے 20 سالوں سے کمیونٹی خدمات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ سوشل ایکشن ریسرچ فاونڈیشن کی شریک ڈائریکٹر ہیں۔ تینتالیس سالہ امینہ نے برمنگھم میں ایک پاکستانی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والدین 1960ء میں کشمیر سے ہجرت کر کے برطانیہ آئے تھے۔ وہ چار بچوں کی والدہ اور سنگل ماں ہیں۔ امینہ مانچسٹر میں رہائش پذیر ہیں جہاں وہ مقامی کونسلر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔
ڈاکٹر روپا حق: ڈاکٹر روپا حق لیبر کی ہدف نشست نمبر56 سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ لندن کے حلقہ ایلنگ اینڈ ایکٹن سے ان کے اہم ترین حریف کنزرویٹیو کی انجی برے ہیں، جو اس حلقے سے اپنی پارلیمانی نشست کا دفاع کر رہی ہیں۔
ایش کروفٹ کے پول نتائج میں ڈاکٹر روپا کی کامیابی کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ جائزے کے مطابق ڈاکٹر روپا کو ٹوریز کی امیدوار سے سات فیصد زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
چالیس سالہ روپا حق کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف ایسٹ لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ کنزنگٹن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر روپا حق گارڈین اور ٹریبیون میں کالم نگار ہونے کے علاوہ مصنفہ بھی ہیں جبکہ وہ ایلنگ بارو کی سابقہ نائب مئیر بھی رہ چکی ہیں۔
نصرت غنی: نصرت غنی حکمراں جماعت کنزرویٹو کے ان امیدواروں میں سے ہیں جن کی جیت کےاچھے امکانات ہیں۔ نصرت غنی ایسٹ سسیکس کاونٹی میں ویل ڈن کے انتخابی حلقے سے نامزد ہیں، جہاں ان کے سامنے متحارب جماعت لیبر کے مضبوط امیدوار سولومن کرٹس انتخاب لڑ رہے ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ وہ ٹوری کی جانب سے پہلی مسلمان رکن پارلیمنٹ منتخب ہو سکتی ہیں جو اس محفوظ نشست پر اپنی جماعت کے سابق رکن پارلیمان چارلس ہینڈری کے مقابلے میں بڑی اکثریت سے کامیاب ہو سکتی ہیں۔
نصرت غنی ایک عشرے سے ٹوری جماعت کے ساتھ ہیں۔ وہ برمنگھم سے پچھلے انتخابات میں بھی حصہ لے چکی ہیں۔ انھوں نے نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں جنھوں نے لیڈز یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔
تسمینہ احمد شیخ: تسمینہ احمد شیخ اسکاٹش نیشل پارٹی کی امیداوار ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں تسمینہ کے انتخابی حلقے سے ان کے مدمقابل امیدواروں میں لیبر کے مضبوط امیدوار گورڈن بینک اور اسکاٹش کنزرویٹو کے امیدوار لیوک میٹرک گراہم ہیں۔
تسمینہ شیخ 1970ء میں لندن میں پیدا ہوئی اور ایڈنبرا میں پلی بڑھیں ہیں۔ انھیں شاہی اعزاز 'او بی ای' اور 'وومن آف دا ایئر' کے اعزاز بھی مل چکے ہیں۔ وہ اسکاٹ لینڈ کی معروف کاروباری خاتون اور وکیل ہیں۔ انھیں پاکستان ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل ہے۔
اگرچہ اسکاٹ لینڈ کو لیبر کا قلعہ کہا جاتا ہے لیکن حالیہ جائزوں کے امکانات سے پتہ چلتا ہے کہ ایس این پی اس انتخابات میں اسکاٹ لینڈ کی سیاسی تاریخ کا نقشہ پلٹ کر رکھ سکتی ہے۔ نکولا اسٹرجن کی جماعت کو اب تک کے جائزوں میں اسکاٹ لینڈ کی مقبول ترین جماعت کا درجہ دیا گیا ہے۔
ناز شاہ: ناز شاہ بریڈ فورڈ میں لیبر کی خاص ہدف نشستوں میں سے ایک پر امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں بریڈ فورڈ ویسٹ کے حلقے سے ریسپیکٹ پارٹی کے منجھے ہوئے سیاستدان اور رکن پارلیمان جارج گیلوے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
ناز شاہ ایک قدامت پرست گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ایک سماجی کارکن ہیں جنھوں نے بارہ برس تک سیاست سے باہر رہ کر حقوق کی جنگ لڑی ہے۔
وہ بریڈ فورڈ مینٹل ہیلتھ کی وائس چیئر اور ذہنی معذوروں کے حقوق کی وکالت کرتی ہیں۔ اکتالیس سالہ ناز شاہ تین بچوں کی سنگل ماں ہیں جبکہ انتخابی مہم کے دوران ناز شاہ کو لیبر کے اہم سیاستدانوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔
آمنہ احمد: آمنہ احمد جنوبی لندن کے انتخابی حلقے اسٹریتھم سے حکومت کی اتحادی جماعت لبرل ڈیموکریٹ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔
آمنہ احمد اور لیبر کے امیدوار اور سابق رکن پارلیمان چکا ہیرسن امونا کے درمیان سخت مقابلہ کی توقع ہے.
آمنہ مقامی سوشل ورکر اور لائبریری میں خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے۔ ان کا بچپن فوسٹر اسکول میں گزرار ہے۔
ٹیولپ رضوانہ صدیقی: ٹیولپ رضوانہ صدیقی شمال جنوبی لندن سے انتخابی حلقے 'ہیمپسٹیڈ اینڈ کلبرم' سے لیبر کی نامزد امیدوار ہیں۔
یہ نشست لیبر کی رکن پارلیمنٹ اور اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اداکارہ گلینڈا جیکسن کے پاس تھی۔ یہاں ان کے مقابلے میں لبرل ڈیمو کریٹ کے امیدوار ماجد نواز اور کنزرویٹیو کے سمن مارکوس کھڑے ہیں۔
ایش کروفٹ کے تازہ ترین سروے میں ٹیولپ صدیقی کے 17 فیصد سبقت کے ساتھ نشست جیتنے کی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ان کا بچپن ایشیا میں گزرا ہے۔ انھیں مقامی سوشل ورکر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جبکہ وہ لندن بارو کیمڈن کی کونسلر بھی رہ چکی ہیں۔
عطرت علی: حکمراں جماعت کنزرویٹیو نے مغربی یورک شائر میں ہڈرسفیلڈ کے انتخابی حلقے سے عطرت علی کو نامزد کیا ہے۔ اسے لیبر کا مضبوط حلقہ کہا جاتا ہے۔
ان کے مقابلے میں اس حلقے سے 1983ء سے ناقابل شکست امیدوار بیری شیر مین لیبر کے امیدوار ہیں جو اپنی سیٹ کا دفاع کر رہے ہیں۔ جبکہ لبرل ڈیموکریٹ کے ذوالفقار علی بھی اسی حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں پندرہ ہزار سے زائد ایشیائی ووٹرز ہیں مگر پہلی بار ایشیائی خاتون کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ عطرت سماجی کارکن ہیں، وہ پچھلے عام انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں۔ عشرت علی کا تعلق پاکستان میں گوجر خان سے ہے۔
زہرا زیدی: حالیہ انتخابات میں کنزرویٹو کی مسلمان امیدواروں میں سے زہرا زیدی مانچسٹر سے 'مارکر فلیڈ' کے انتخابی حلقے کی امیدوار ہیں۔
یہ پارلیمانی نشست لیبر کے امیدوار ایوان فووارگو کے پاس تھی جو اس بار بھی پارلیمانی نشست کے لیے امیدوار ہیں۔
نتاشہ اصغر: کنزرویٹیو کی نتاشہ اصغر نیو پورٹ ایسٹ سے امیدوار نامزد کی گئی ہیں۔ نتاشہ لندن میں بینک میں ملازم ہیں لیکن اس سے پہلے وہ کئی ایشین ٹی وی چینل پر میزبانی کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔
انھوں نے ویلش پارلیمانی انتخابات میں دو بار حصہ لیا ہے جبکہ وہ 2009ء کی یورپین پارلیمنٹ کی امیدوار بھی رہی ہیں۔
ان کے حلقے میں لیبر کی رکن پارلیمنٹ جیسیکا مورڈن اپنی نشست کا دفاع کر رہی ہیں۔