میانمار کی فوجی حکومت نے پیر کے روز 3000 سے زیادہ قیدیوں کو نئے قمری سال کی روایتی تعطیل کی خوشی میں معافی دی ہے، لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا ان ہزاروں قیدیوں میں وہ سیاسی قیدی بھی شامل ہیں جو فوجی حکومت کی مخالفت کرنے پر جیلوں میں ڈال دیے گئے تھے۔
سرکاری ایم آر ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد فوج کی طرف سے بنائی گئی حکمراں تنظیم ریاستی انتظامی کونسل نے 3,113 قیدیوں کو معافی دی ہے۔ ان میں 98 غیر ملکی بھی شامل ہیں جنہیں ملک بدر کیا جائے گا۔ ہر سال اس موقع پر عموماً بڑے پیمانے پر قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے۔
ینگون کی انسین جیل کے ایک اہل کار نے , جو معلومات جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاہے کہ ملک کے سب سے بڑے قید خانے سے رہا کیے جانے والے افراد کی تعداد اور نام ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔ ریلیز پیر سے شروع ہونے کی توقع تھی۔
سیاسی قیدیوں کی مدد کے لیے قائم ایک آزاد گروپ ’’اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز‘‘ کے مطابق، جو ملک کی سیاسی تنازعات سے منسلک گرفتاریوں اور ہلاکتوں کی تفصیلی تعداد رکھتی ہے، میانمار کی سابق سویلین رہنما آنگ سان سوچی سمیت تقریباً 17460 سیاسی نظربند گزشتہ بدھ تک حراست میں تھے۔
SEE ALSO: میانمار: فوج کے فضائی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 170 سے بڑھ گئیمیانمار میں یکم فروری 2021 کو فوج نے سوچی کی منتخب حکومت کو معزول کر دیا تھا جس کے بعد سے فوجی حکمرانی قائم ہے ۔اس فوجی قبضے کو بڑے پیمانے پر غیر متشدد مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جو، اب ایک وسیع مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
شہری چھاپہ مار گروپ ، بڑے شہروں میں سرگرم ہیں، اور غیر منظم عوامی دفاعی افواج، لسانی اقلیتی چھاپہ مارگروپوں میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ، باقاعدگی سے فوجی کالموں اور چوکیوں پر حملہ کرتی ہیں۔
دیہی علاقوں میں عام شہری وحشیانہ فوجی کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں ، جن کے خلاف توپ خانے اور فضائی حملوں کا بھی استعمال ہوا ہے ۔ فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جس سے انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔
اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کے مطابق، فوجی قبضے کے بعد سے کم از کم 3240 شہری سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ اس تعداد میں لڑائی سے ہونے والی تمام ہلاکتیں شامل نہیں ہیں۔
سابق سیاسی قیدیوں کی سوسائٹی کے ایک سینئر رکن،تن کائی نے کہا کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ رہا ہونے والوں میں کتنے سیاسی قیدی ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ان کا گروپ ایسی ریلیز کو سیاسی پوائنٹ سکور کرنے، بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے اور فوج کی قانونی حیثیت کو ظاہر کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتا ہے۔
SEE ALSO: میانمار واپسی کے منصوبے پر روہنگیا پناہ گزینوں کے شکوک و شہباتنئے سال کے تہوار ، تھنگیان کی تقریبات میں جمع ہونے والا ہجوم ،وبائی مرض کرونا وائرس کے دوران اور 2021 کے قبضے سے پہلے جمع ہونے والے ہجوم سے چھوٹا تھا ۔ زیادہ تر دیہی علاقوں میں تقریبات نہیں ہوئیں۔ بہت سے لوگوں نے فوجی حکمرانی کے مخالفین کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے فوج کی طرف سے منعقدہ سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔
نئے سال پر عموماً نو دن کی تعطیل ہوتی ہے اور ان میں صرف چار دن سرکاری تقریبات ہوتی ہیں۔ لیکن ان دنوں میں بھی فوج اور جمہوریت نواز قوتوں کے درمیان پرتشدد جدوجہد جاری رہا۔ دیہی علاقوں میں مسلح جھڑپیں ہوئیں اور کئی قصبوں اور شہروں میں سرکاری فوج کے زیر اہتمام تقریبات میں چھوٹے بم دھماکے ہوئے۔تاہم ہلاکتوں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔
SEE ALSO: میانمار: چن باغیوں پرفوج کے فضائی حملوں میں شدت، لوگ سرحد پار فرار ہونے لگےملک کے فوجی رہنما، سینئر جنرل من آنگ ہلینگ نے نئے سال کی تقریر میں جو پیر کو نشر ہوئی ،ملک کے بڑھتے ہوئے سیاسی بحران پر کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ معیشت جسے 2021 میں مشکلات کا سامنا تھا، اس کی شرح نمو میں تقریباً 3 فیصد اضافہ ہوا ہے، مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بہتری آئی ہے ، 2022 میں سرحدی تجارت کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے ، اور کاروبار دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر لوگ زیادہ سے زیادہ مصنوعات برآمد کرنے کے لیے محنت کریں تو اس سال معاشی ترقی پچھلے سالوں سے بہتر ہوگی۔
خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس لیا گیاہے