روہنگیا کی حالت زار، سوچی کی خاموشی پر بڑھتی ہوئی نکتہ چینی

اب اُن سے نابیل پرائز واپس لینے کی درخواست سامنے آئی ہے (جس پر نابیل کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں)، جب کہ اُن کے خلاف بڑے پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے

بیس برس سے زیادہ عرصے سے آنگ سان سوچی انسانی حقوق کی عملبرداری رہی ہیں۔ خاتون کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، کیونکہ وہ ایک عرصے تک گھر میں نظربند رہ چکی ہیں، اور میانمار کی فوجی حکومت کے ہاتھوں زیادتیاں برداشت کر چکی ہیں۔


میانمار کی فی الواقع حکمران کو 'سخاروف پرائز' نابیل امن انعام اور امریکی 'صدارتی میڈل آف فریڈم' دیا گیا تھا۔ اُن کو اعزازی ڈگریاں اور اعلیٰ اداروں کی رکنیت پیش کی گئی۔


اب اُن سے نابیل پرائز واپس لینے کی درخواست سامنے آئی ہے (جس پر نابیل کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں)، جب کہ اُن کے خلاف بڑے پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ دیگر نابیل پرائز لینے والے نامور افراد نے، جن میں دلائی لاما، ریٹائرڈ بشپ لے موند ٹوٹو اور ملالہ یوسف زئی شامل ہیں، اُن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کے روہنگیا اقلتی گروپ کے خلاف ہونے والے تشدد کی مذمت میں کھل کر بیان دیں۔


تین ہفتے قبل، جب روہنگیا شدت پسند گروپ نے میانمار کی ریاست رخائن میں پولیس کی چوکیوں پر دھاوا بولا، فوج اور سلامتی افواج جوابی کارروائی کر چکی ہے۔ اب تک بنگلہ دیش میں تقریباً 400000 روہنگیا افراد پناہ لے چکے ہیں، جنھیں پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جہاں امداد کارکن اُنھیں خوراک فراہم کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔


اقوام متحدہ نے زیادہ تر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی ان کارروائیوں کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے؛ جب کہ دیگر حلقے اسے نسل کشی کہتے ہیں۔


تاہم، آنگ سان سوچی نے چپ سادھ لی ہے۔ اُن کے شروع کے بیانات میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اس معاملے پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔