سن 1990 کے عشرے میں میانمار کی فوج نے شان نسل سے تعلق رکھنے والے تقریباً 3 لاکھ افراد کو اسی بے دردی کے ساتھ اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا جس طرح کے واقعات حالیہ عرصے میں پیش آتے رہے ہیں۔
شان ریاست اور دوسرے نسلی علاقوں میں فوج مقامی آبادیوں کو تواتر کے ساتھ ہراساں کرتی آئی ہے۔ یہ سن 2002 کا ذکر ہے جب لونگ سائی لانگ کو اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے اپنا آبائی علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔ انہیں اب تک اس دور میں ہونے والے مظالم یاد ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے سنا کہ برمی فوجی آ رہے ہیں تو تمام مرد غائب ہو گئے اور گھروں میں صرف بچوں اور عورتوں کو چھوڑ دیا گیا۔ جب انہیں مرد نہیں ملے تو وہ ہماری عورتوں کو جبری مشقت کے لیے لے گئے۔ انہوں نے ہماری خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں اور ان سے ہر طرح کی بدسلوکی روا رکھی۔
نسلی اقلیتوں پر مظالم کے واقعات اس وقت سے شدید تر ہوتے گئے جب 1962 میں وہاں فوجی حکومت قائم ہوئی ۔ تاہم اس بارے میں شہادتیں اکھٹی نہیں کی گئیں۔
پھر سن 2002 میں شان نسلی اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی رپورٹ سامنے آئی۔ سن 1962 سے 2002 تک جنسی زیادتیوں، زنا بالجبر اور تشدد کے دیگر 173 واقعات کو رپورٹ کیا گیا۔
شان ہیومن رائٹس فورم کی شان ٹونگ کہتی ہیں کہ یہ مظالم انتہائی شرم ناک تھے۔ مقامی آبادی کی تذلیل کی جاتی تھی اور انہیں باور کریا جاتا تھا کہ فوج ان پر جس طرح چاہے ظلم کر سکتی ہے۔
وہاں جنسی زیادتیوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور روہنگیا مسلمانوں کو برمی فوج نشانہ بنا رہی ہے۔ میانمار کے فوجی عہدے دار ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے سینکڑوں متاثرین کی شہادتیں جمع کی ہیں ۔ اب انہیں راکھین صوبے میں مزید تحقیق اور رسائی کی اجازت نہیں ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ اب ہم ان علاقوں میں اس لیے نہیں جا سکتے کہ وہ بے حد خطرناک ہیں۔ نہ صرف ہمارے بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی جو وہاں مقیم ہیں۔ ہم وہاں پر برمی حکومت کی مداخلت کے بغیر مکمل آزاد رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہم مکمل غیر جانب داری سے وہاں پر ہونے والے ان واقعات کی چھان بین کر سکیں۔
اس طرح کی شہادتوں اور مصدقہ واقعات کے بعد بھی اب یہ سوال موجود ہے کہ کیا وہاں کے متاثرین کو کبھی انصاف مل سکے گا، خواہ ان کا تعلق ماضی سے ہو یا حال کے واقعات سے۔