پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے دستخط کے بعد نافذالعمل ہوگیا ہے. اس آرڈیننس کو جاری کرنے پر اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو اپنے دوستوں کو نوازنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے. تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق اس آرڈیننس کے ذریعے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
جاری ہونے والے آرڈیننس میں سب سے زیادہ فائدہ کاروباری افراد کو ہوا ہے جنہیں نیب کی گرفت سے آزاد کردیا گیا ہے جبکہ ان کے ساتھ بیوروکریٹس کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
نیب کو صرف 50 کروڑ روپے سے زائد کرپشن کے معاملات پر کارروائی کا اختیار ہے جس کی وجہ سے بیشتر سرکاری ملازم جو اس سے کم رقم کی کرپشن میں ملوث ہیں وہ محکمانہ کارروائی یا پھر ایف آئی اے کا سامنا کریں گے۔
50 کروڑ سے زائد کی کرپشن پر بھی نیب براہ راست کارروائی نہیں کر سکے گا۔ بلکہ چھ رکنی کمیٹی کی سفارش پر اس شخص کے خلاف نیب کی کارروائی کا آغاز ہو گا۔
کون سے سیاست دان مستفید ہوں گے؟
ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور یوسف رضا گیلانی کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اپوزیشن کے دیگر اراکین کو بھی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ ماہرین کے مطابق کاروباری معاملات سے متعلق کیسز پر نیب کا دائرہ اختیار ختم ہو چکا ہے۔ بعض کیسز میں سرکاری ملازمین ہیں جنہیں کمیٹی کی سفارش کے بغیر تحقیقات کے دائرہ میں نہیں لایا جا سکتا۔ ایسی صورتِ حال میں اس سہولت کا فائدہ ان سیاست دانوں کو پہنچے گا جو اس وقت نیب کی حراست میں ہیں۔
نیب کے سابق پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ نیب کی کارکردگی پر پہلے ہی سوالیہ نشان تھے۔ وہ وصولیاں نہیں کر پا رہا تھا۔ لیکن خودمختار ادارہ ہونے کے باعث اس میں حکومتی مداخلت کم تھی۔ ان کے بقول نیب کی خراب کارکردگی سے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔
راجہ عامر عباس کے بقول نیب کسی کو بھی محض الزام لگنے پر گرفتار کر لیتا تھا۔ لیکن عدالتوں میں وہ الزامات ثابت نہیں ہو پاتے تھے۔ لہذٰا اب بہت سے معاملات نیب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو منتقل کیے جائیں گے۔
راجہ عامر عباس کے مطابق ایف آئی اے کے پاس قابل افسران ہیں۔ اور جدید تفتیشی طریقوں سے وہ وائٹ کالر کرائم کی بہتر انداز میں تفتیش کر سکتے ہیں۔
نئے آرڈیننس میں بدنیتی یا طریقہ کار کے باعث بے ضابطگی کرپشن تصور نہیں ہو گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق نیب ترمیمی آرڈیننس میں نواز شریف کی ایون فیلڈ ریفرنس کی سزا عدالت کے ذریعے ختم ہو سکے گی جبکہ آصف زرداری کا جعلی بینک اکاؤنٹس کیس بھی ترمیمی آرڈیننس کے باعث غیر مؤثر ہو جائے گا۔
نئے آرڈیننس کے ذریعے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل فائدہ حاصل کر سکیں گے۔
سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، سابق سینئر صوبائی وزیر علیم خان، فواد حسن فواد بھی نیب ترمیمی آرڈیننس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق عدالتوں میں زیر سماعت اور نیب میں زیر تفتیش مقدمات پر بھی ہو گا۔ جس کی وجہ سے اکثر کیسز دیگر عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ ان کیسز میں بعض ایف آئی اے، کسٹمز اور ریونیو کو بھجوا دیے جائیں گے۔
پرانے نیب مقدمات میں ٹرائل کورٹ سے سزا پانے والے اعلیٰ عدالتوں میں ریلیف کے لیے اپیل کر سکیں گے۔
حکومتی ردعمل
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ کسی کو بھی احتساب سے چھوٹ نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری اور کرپشن کرنے والوں پر اس ترمیم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی چاہے ان تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس ہے جو کہ محدود مدت کے لیے ہے۔ اسے بہرحال منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں لایا جائے گا۔ اگر اپوزیشن چاہے تو اس میں مزید اصلاح کا امکان موجود ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے کی اپنی حدود ہیں جن کی وضاحت کی گئی ہے۔ جہاں پر وفاقی ٹیکس یا لیویز یا اور کوئی قانون ہو گا تو وہ ٹیکسیشن کے زمرے میں آئے گا۔ لہذٰا وہ نیب کے دائرہ کار میں نہیں ہو گا اور اگر کسی شخص نے ٹیکس ادا نہیں کیا یا ٹیکس چوری کی تو اس کا کیس ایف بی آر دیکھے گا۔
کن حکومتی شخصیات کو فائدہ ہو گا؟
اس آرڈیننس کے ذریعے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور سینئر صوبائی وزیر عاطف خان کے ساتھ وزیر اعظم کے سیکریٹری اعظم خان بھی مستفید ہوں گے۔
محمود خان، عاطف خان، اعظم خان اور وزیر داخلہ پرویز خٹک کے خلاف نیب مختلف الزامات کے تحت تحقیقات کر رہا ہے۔ ان حکومتی شخصیات کے خلاف مالم جبہ اور پشاور بس منصوبہ (بی آر ٹی) میں مبینہ گھپلوں کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ لیکن اعظم خان بیورو کریٹ ہونے اور بعض معاملات میں کاروباری شخصیات شامل ہونے پر یہ کیسز اب نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکل جائیں گے۔
فائدے کے پوائنٹس
نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا جب کہ ترمیمی آرڈیننس سے ٹیکس اور اسٹاک ایکسچینج سے متعلق معاملات میں بھی نیب کا دائرہ اختیار ختم ہو جائے گا۔
نیب حکومتی منصوبوں اور اسکیموں میں بے ضابطگی پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا۔ تاہم کسی پبلک آفس ہولڈر نے بے ضابطگی کے نتیجے میں مالی فائدہ اٹھایا تو نیب کارروائی کر سکتا ہے۔
وفاقی و صوبائی ٹیکس اور لیویز کے زیر التوا مقدمات بھی متعقلہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔
نئے آرڈیننس کے مطابق سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا۔ اور اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہو گا۔ مگر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔
سینئر صحافی شہریار خان کہتے ہیں کہ اس قانون سے فائدہ اٹھانے والوں میں حکومتی اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں۔ ان کے بقول حکومت یہ آرڈیننس اس لیے لائی ہے تاکہ بیورو کریسی کام کرے۔ جو گزشتہ ایک سال سے غیر فعال ہو کر رہ گئی تھی۔
شہریار خان کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی کسی نئے منصوبے پر کام نہیں کر رہی تھی۔ کیوں کہ پرانے منصوبوں پر کام کرنے والے نیب میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ اس کے علاوہ سرمایہ کار اس خوف کے ماحول میں نئی سرمایہ کاری کرنے سے بھی گریزاں تھے۔