یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والی سرگرم کارکن نادیہ مراد نے، جسے داعش نے پکڑ کر عراق اور شام میں اپنی جنسی کنیز بنائے رکھا تھا، فرار ہونے کے بعد عسکریت پسندوں کی قید میں موجود خواتین اور لڑکیوں کی آزادی کے لیے مہم چلائی اور سینکڑوں خواتین کو رہائی میں مدد دی۔ ان خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبیل امن انعام کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔
10 دسمبر کو انہیں اوسلو میں ایک خصوصی تقریب کے دوران نوبیل ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے نادیہ کا کہنا تھا کہ یہ اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر میں کمزور یزیدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو تحفظ فراہم کرے۔
25 سالہ نادیہ مراد کو کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مک ویج کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبیل انعام دیا گیا ہے جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے جمہوریہ کانگو میں جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین اور عورتوں کا علاج کر رہے ہیں اور انہیں صدمے اور خوف کی کیفیت سے نکلنے میں مدد دے رہے ہیں۔
نوبیل کمیٹی کے چیئرمین بریٹ ریس اینڈرسن نے اس موقع پر اپنی تقریر میں نادیہ مراد اور بریٹ ریس اینڈرسن کو آج کی دنیا کی دو مضبوط ترین آوازیں قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں نے اپنے مختلف پس منظروں کے باوجود انصاف کے لیے جدوجہد کی۔
نادیہ مراد ریس اینڈرسن کی تقریر کے دوران یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مصائب کے ذکر پر آبدیدہ ہو گئیں۔
نادیہ اور ان کی کمیونٹی نے داعش کی قید کے دوران شديد مسائل جھیلے۔ بڑی عمر کی عورتوں اور مردوں کو داعش نے اجتماعي طور پر قتل کیا جسے اقوام متحدہ نے نسل کشی قرار دیا ہے۔
نادیہ مراد کو داعش نے 2014 میں پکڑا تھا جس کے بعد انہیں مارپیٹ، زبردستی شادی اور اجتماعي جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا، اس دوران وہ ان کی قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔
نادیہ مراد نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی کمیونٹی کے ہزاروں لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کیا گیا، انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اور آج بھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ داعش کی قید میں موجود لگ بھگ 3000 ہزار یزیدی خواتین کہاں ہیں، کس حال میں ہیں اور ان پر کیا گزر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان لڑکیوں کو اپنی عمر کی سنہرے دور میں خریدا، بیچا اور قید میں رکھا جاتا ہے اور ہر روز ان سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔