|
دہلی کی ایک عدالت نے حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے ایک رہنما کی جانب سے مبینہ ہتک عزت کا معاملہ دائر کیے جانے پر معروف یوٹیوبر دھرُوَ راٹھی کو سمن جاری کیا ہے۔
بی جے پی کی ممبئی شاخ کے ترجمان سریش کرامشی نکُھوا نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرو راٹھی نے سات جولائی کو اپنے یو ٹیوب چینل پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی تھی جس میں انھوں نے ان کو ’تشدد پسند اور بدزبان ٹرول‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے 20 لاکھ روپے کے ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اب اس معاملے پر چھ اگست کو سماعت ہو گی۔
عدالتی سمن پر دھرو راٹھی کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ایک ہفتہ قبل مہاراشٹر سائبر پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دھرو راٹھی کے نام سے ایک پیروڈی چینل سے کی جانے والی ایک پوسٹ پر ان کے خلاف کیس درج کیا تھا۔ یہ کیس لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کی بیٹی کے بارے میں مبینہ فیک نیوز پر درج کیا گیا۔
نئی دہلی کے بعض حلقوں میں اس کارروائی کو حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سینئر صحافی اور نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ سے وابستہ عارفہ خانم شیروانی کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی 10 سالہ حکومت کے خلاف رائے عامہ بنائی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت ہارتے ہارتے بچی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نے انتخابی نتائج کو متاثر کیا اور یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم مودی ان لوگوں کو سزا دینا چاہتے ہیں۔
کیا دھرو راٹھی کی ویڈیوز نے انتخابی نتائج کو متاثر کیا؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار اوماکانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ دھرو راٹھی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران حکومت کی پالیسیوں کے خلاف متعدد ویڈیوز بنائی تھیں جن کو کروڑوں افراد نے دیکھا۔ ان ویڈیوز سے ایک طرح سے حکومت کی سبکی ہوئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالاں کہ دھرو راٹھی نے کوئی نئے ایشوز نہیں اٹھائے تھے بلکہ وہ ایشوز عوام کے درمیان تھے۔ لیکن چوں کہ انھوں نے بہت تحقیق کر کے وہ ویڈیوز بنائی تھیں اس لیے ایک خاص حلقے میں ان کو پسند اور دوسرے میں نا پسند کیا جانے لگا۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دھرو راٹھی کی ویڈیوز نے عام انتخابات کو متاثر کیا تھا۔ لیکن اوما کانت لکھیڑہ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ان کی مودی مخالف ویڈیوز کو لوگوں نے کافی پسند کیا۔
عارفہ خانم کہتی ہیں کہ دھرو راٹھی خود کو صحافی نہیں کہتے اور میں بھی ان کو صحافی نہیں مانتی۔ ان کا کام صحافت کے دائرے میں نہیں آتا۔ لیکن یہ کہوں گی کہ ان کی ویڈیوز لوگوں نے بڑی تعداد میں دیکھیں اور یقیناً ان کا اثر رہا ہو گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈیجٹل اسپیس سے وابستہ صحافیوں نے اپنی ویڈیوز اور پروگراموں سے عوام کو جس طرح متاثر کیا وہ زیادہ بڑی چیز ہے۔
میڈیا میں ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ حکومت سوشل میڈیا پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ اس لیے اس نے 2021 میں ’انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز‘ بنائے جس کی مدد سے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ہدایت پر بہت سی سوشل میڈیا پوسٹس کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بعض ریاستی حکومتوں نے متعدد یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی کی ہے۔ مثال کے طور پر اترپردیش کی حکومت نے ایک یوٹیوبر کو اس لیے گرفتار کر لیا کہ اس نے اپنی ویڈیو میں ریاست میں صحت عامہ کی خراب صورت حال کو اجاگر کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر کنٹرول کی کوششیں؟
عارفہ کہتی ہیں کہ ’دی وائر‘کے خلاف کئی مقدمات چل رہے ہیں۔ خود ان پر ہتک عزت کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ ان کی موجودگی میں ان کے دفتر پر پولیس نے چھاپہ بھی ڈالا۔ لیکن نہ ہم گزشتہ 10 برس میں ڈرے ہیں اور نہ ہی 11 ویں برس میں ڈر رہے ہیں۔
اوما کانت لکھیڑہ کہتے ہیں کہ دھرو راٹھی کے خلاف مقدمات سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی حکومت کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ ان کے مطابق حکومت اپنی تنقید برداشت نہیں کرتی۔ میں ایسے درجنوں صحافیوں سے واقف ہوں جن سے حکومت بہت ناراض رہتی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کا کہنا ہے کہ کوئی بھی میڈیا ہو اور کسی بھی ادارے سے وابستہ صحافی ہو اسے ملکی قوانین کی پابندی کرنا پڑے گی اور جو ان کی پابندی نہیں کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جن میڈیا اداروں کے خلاف پولیس نے کارروائی کی ہے ان کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف اس کے پاس کافی شواہد ہیں۔ جب کہ میڈیا ادارے اس دعوے کی تردید اور الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چوں کہ نیشنل میڈیا حکومت کا حامی ہو گیا ہے اور وہ قومی مسائل پر حکومت سے کوئی سوال نہیں پوچھتا اسی لیے سوشل میڈیا کو کافی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور دھرو راٹھی کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ان کے مطابق چوں کہ یوٹیوبرز اظہارِ خیال کی آزادی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے ویڈیوز بناتے ہیں اس لیے ان کو لاکھوں اور کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔
آخر بھارت میں یوٹیوبرز کو اتنی اہمیت و مقبولیت کیوں حاصل ہوئی؟
اس بارے میں اوماکانت لکھیڑہ کہتے ہیں کہ بھارت کا قومی میڈیا ملکی مسائل کو نہیں اٹھاتا وہ مکمل طور پر حکومت کا حامی ہو گیا ہے۔ ایسی صورت حال میں جب انہی ایشوز پر سوشل میڈیا پر بات ہوتی ہے تو اسے لوگ دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول دھرو راٹھی جو ایشوز اٹھاتے ہیں وہ وہی ہیں جن کو قومی میڈیا اٹھانے سے بچتا ہے اور چوں کہ ان کی ویڈیوز ریسرچ کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہیں اس لیے ان کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق انھیں بی جے پی حکومت اور بالخصوص وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف ویڈیو بنانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کی ایسی ویڈیوز کو لاکھوں بلکہ بعض ویڈیوز کو کروڑوں ویوز اور لائکس ملتے ہیں۔
انھوں نے فروری میں ایک ویڈیو ریلیز کی تھی جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارت ’یک جماعتی آمریت‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے اپنی ویڈیو میں وزیرِ اعظم مودی کو ڈکٹیٹر قرار دیا تھا۔ اس ویڈیو کو 23 ملین افراد نے دیکھا تھا۔ انتخابات کے دوران اور نتائج آنے کے بعد بھی ان کی ویڈیوز کو کافی دیکھا گیا۔
دھرو راٹھی کون ہیں؟
دھرو راٹھی دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کے روہتک ضلع کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنی ریاست سے اور اعلیٰ تعلیم جرمنی سے حاصل کی۔ انھوں نے میکینکل انجینئرنگ کی ڈگری لی ہے۔ انھوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کی ہے اور وہیں رہائش پذیر ہیں۔
انھوں نے 2013 میں اپنا یوٹیوب چینل شروع کیا اور اس پر ویڈیوز اپلوڈ کرنے لگے۔ ابتدا میں انھوں نے سماجی و تعلیمی ایشوز پر ویڈیوز بنائے لیکن پھر سیاسی موضوعات پر بنانے لگے۔
ان کے 28 ملین سے زائد سبسکرائبر ہیں۔ نئی دہلی کی ایک نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے مطابق وہ پہلے انڈین ہیں جنھوں نے یوٹیوب کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ 2013 میں وہ ٹریول ویڈیوز کرتے تھے لیکن سال کے اختتام تک وہ سیاسی و سماجی ویڈیوز بنانے لگے۔
انھوں نے رواں سال کے اپریل میں پانچ نئے یوٹیوب چینل شروع کرنے کا اعلان کیا جن پر پانچ بھاتی زبانوں تمل، تیلگو، بنگالی، مراٹھی اور کنڑ میں ڈب کی ہوئی ویڈیوز اپلوڈ کی جاتی ہیں۔