لاہور میں شدید اسموگ ناسا کی سیٹلائٹ تصاویر سے بھی واضح

  • پاکستان اور بھارت میں گنجان آباد شہر اسموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔
  • سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں بھی واضح ہو رہا ہے کہ سرحد کے دونوں جانب ایک بڑے علاقے کو اسموگ نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
  • لاہور اور نئی دہلی سمیت کئی شہروں کے ایئر کوالٹی انڈیکس کو مسلسل صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا جا رہا ہے۔
  • اسموگ کے سبب حکام اسکولوں کی بندش سمیت کئی اقدامات پر مجبور ہوئے ہیں۔

ویب ڈیسک _ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور اور سرحد پار بھارت کا دارالحکومت نئی دہلی ان دنوں شدید فضائی آلودگی کا شکار ہیں۔ دونوں شہروں میں ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) مسلسل خطرے کے نشان کو پار کر رہا ہے۔

لاہور اور نئی دہلی میں اے کیو آئی 300 سے بلند ہے جسے صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے سیٹلائیٹس سے ’ناسا ورلڈ ویور‘ سے حاصل کی جانے والی تصاویر سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ ان دونوں شہروں میں اسموگ نے فضا کو جکڑ لیا ہے۔

اسموگ کے سبب پاکستان میں پنجاب کی حکومت بچوں کے تحفظ کے لیے اسکول بند کرنے پر مجبور ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے مختلف اضلاع میں مارکیٹوں اور کاروباری مراکز کو بھی شام آٹھ بجے بند کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔

ناسا کی ورلڈ ویور سروس سے حاصل کی جانے والی تصاویر میں نظر آ رہا ہے کہ اگست اور ستمبر کے مہینوں میں دہلی اور لاہور کی فضا صاف ہے۔ البتہ نومبر کی 10 تاریخ کو گہرے سیاہ مائل رنگ نے فضا کو گھیرا ہوا ہے جس سے شدید اسموگ کی نشان دہی ہو رہی ہے۔

یہ سرمئی بادلوں کا کہر پاکستان کے صوبے پنجاب اور سرحد پار بھارتی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ میں کسانوں کی جانب سے ان مہینوں میں زرعی فضلے کو جلانے کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔

لاہور اور دہلی کے مضافات میں اینٹوں کے بھٹے یا کوئلے سے چلنے والے دیگر پلانٹس اسموگ کی صورتِ حال کو مزید بدترین بنا دیتے ہیں۔

دو دن قبل 10 نومبر کو پاکستان میں لاہور جب کہ سرحد پار بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی فضا میں شدید اسموگ واضح ہے۔

ستمبر میں ان علاقوں میں موسم ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے جب کہ نومبر کے وسط تک یہاں سردی بڑھ چکی ہوتی ہے۔ سرد اور خشک موسم میں اسموگ کے سبب فضائی آلودگی یہاں کے مکینوں کے لیے مزید مشکلات کا سبب بن جاتی ہے۔

سرد موسم میں ہوا میں موجود گندگی کے انتہائی چھوٹے ذرات زیادہ دیر تک ماحول میں موجود رہتے ہیں جب کہ گرم ہوا میں یہ فضائی آلودگی تیزی سے آگے بڑھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہے۔

واضح رہے کہ لاہور میں رواں ہفتے کے آغاز پر ہوا کا معیار آئی کیو ایئر کا انڈیکس ایک ہزار سے بھی بلند ہو گیا تھا۔ یہ ہوا کا اس قدر خراب معیار صحت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہریوں میں بھی گزشتہ ہفتے ایئر کوالٹی انڈیکس اسی طرح خطرناک رہا ہے۔

اکتوبر میں سیٹلائٹ سے لی گئی لاہور اور نئی دہلی کی تصاویر

ہوا کے خراب معیار کے سبب شہری اسپتالوں میں مختلف امراض کا علاج کرنے بھی پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سانس، ناک، کان اور آنکھوں کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد زیادہ ہے۔

حکام بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ مریضوں کی بڑھتی تعداد کے سبب اسپتالوں پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

فضائی آلودگی جہاں صحت کی خرابی کا سبب بن رہی ہے وہی یہ سفر کو بھی مشکل بنا رہی ہے۔ اسموگ کے دوران شاہراہوں پر متعدد حادثات کی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں۔

دوسری جانب اندرونِ ملک اور انٹرنیشنل پروازیں متواتر تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں یا انہیں ملتوی کیا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی بچوں کے بہبود کی ایجنسی یونیسف کے مطابق پاکستان میں اسموگ سے متاثرہ اضلاع میں لگ بھگ ایک کروڑ دو لاکھ بچے فضائی آلودگی سے براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

یونیسف نے پیر کو ایک بیان میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے لاہور سمیت کئی اضلاع میں عالمی ادارۂ صحت کے فضائی معیار کے مقرر کردہ حد کو کئی گنا پیچھے چھوڑتے ہوئے آلودگی کی سطح کے نئے ریکارڈ بنے ہیں۔

اگست میں پاکستان اور بھارت کے شہر سیٹلائٹ تصاویر میں واضح ہیں۔

صوبائی حکومت نے لاہور میں ہر ایک کے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دیا ہے تاہم اس پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔ سرکاری اداروں میں 50 فی صد ملازمین کو گھر سے کام کی ہدایت کی گئی ہے۔

اسی طرح ریستورانوں میں کھانوں کو فلٹر کے بغیر باربی کیو کرنے کی ممانعت ہے جب کہ شادی ہال لازمی طور پر رات 10 بجے بند کیے جائیں گے۔

حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی پابندیوں کو شہر میں ’گرین لاک ڈاؤن‘ کا نام دیا گیا ہے۔

فضائی آلودگی کے سبب وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھارت کے ساتھ کلائمیٹ ڈپلومیسی پر زور دے رہی ہیں۔

اسموگ کی صورتِ حال پر مریم نواز کہہ چکی ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاست کے بجائے انسانی بنیادوں پر سوچنا ہو گا۔ انہوں نے اس ضمن میں بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔