کہتے ہیں کہ اگر کوئی پردیسی کسی ملک میں جاکر وہاں کی زبان سیکھ لے اور وہاں کا رہن سہن اپنا لے تو اس ملک والے اس سے والہانہ محبت کرنے لگتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہمارے کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ہوا ہے ۔ انہوں نے جب سے اخبار میں یہ خبر پڑھی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نسوار استعمال کرتا ہے، ان لوگوں کی ہمدردی اچانک اس سے بڑھ گئی ہے۔
ہمدردی انسانی فطرت ہے۔ پھر پختون بھائی تو ویسے بھی مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کراچی سے پشاور تک کسی بھی صوبے میں چلے جائیے آپ کو چائے پانی کے فوراً بعد نسوار پیش کی جائے گی۔ نسوار بھی ایسی ڈبی میں کہ جو بالکل نئی، چمک دار اور شیشہ جڑی ہوگی ۔۔ پہلی نظر میں آپ کو لگے گا کہ شاید زعفران ہو ۔۔۔ مگر نسوار کی قدر کھانے والے ہی جانتے ہیں۔ ان کے لئے نسوار زعفران سے قیمتی اور کہیں زیادہ اہم ہے۔
نسوار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں قبائلی علاقوں میں نسوار کی باقاعدہ ہڑتال کی گئی ۔ معاملہ یہ تھا کہ جہاں ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے وہیں نسوار کے نرخ بڑھانے کے لئے بھی باقاعدہ ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔ جو لوگ ہڑتال کی پیشگی خبر سے لاعلم رہے وہ سارا دن نسوار کے لئے ادھر ادھر بھٹکتے پھرے ۔ ہڑتال کے اگلے دن سے ہی نسوار جو پہلے پانچ چھ روپے میں مل جاتی تھی وہ دس روپے فی پڑیا ہوگئی۔ یعنی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہوگیا۔
نسوار تمباکو کے پتوں کو نہایت باریک باریک پیس کر اور حسب منشا چونا ملا کر تیار کی جاتی ہے۔ اس کا رنگ گہرا سبز ہوتا ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان و خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں خصوصا ًجبکہ باقی صوبوں میں عموماً نسوار پسندکرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ افراد نسوار کو خاص قسم کی ڈبی یا پلاسٹک کی تھیلی میں بند کرکے جیب میں رکھتے ہیں۔ پھر جب اور جہاں چاہا نسوار کو چٹکی میں دبایا اورنچلے ہونٹ اور مسوڑوں کے درمیان یا پھر گال میں رکھ لیا جاتا ہے۔
یہ بات شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ نسوار کی باقاعدہ فیکٹریاں ہوتی ہیں۔ جی ہاں ۔۔ یہ ہوم انڈسٹری ہے۔ ایک آدھ سال پہلے کی بات ہے صادق آبادکے مضافاتی علاقے کوٹ سبز ل میں واقع نسوار فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے حق کے لئے باقاعدہ آواز اٹھائی گئی تھی۔
کراچی کے بے شمار علاقوں میں نسوار کی باقاعدہ بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ مثلاً صدر، سہراب گوٹھ، بنارس، میٹروول وغیرہ۔ اس کے علاوہ نسوار چھوٹی موٹی چیزوں کی مختلف دکانوں اور خاص کر موچی کی دکانو ں پربھی مل جاتی ہے۔ اگرچہ کراچی میں یہ صرف نسوار ہی کے نام سے ملتی ہے مگر خیبر پختونخواہ میں اس کے باقاعدہ نام بھی ہیں۔ کچھ نام تو بہت ہی دلچسپ ہیں مثلاً ایف سولہ، طورخم، میزائل، سفارش خان اور لکی وغیرہ ۔
کچھ لوگ نفاست کے ساتھ نسوار کھانا پسند کرتے ہیں۔ مثلاً کچھ ماڈرن سوچ رکھنے والے ٹشو پیپر میں لپیٹ کر نسوار منہ میں رکھتے ہیں تاکہ انہیں بار بار تھوکنا نہ پڑے۔ پھر ٹشو پیپر سے یہ سہولت بھی ہے کہ جب چاہا نکال کر ٹیبل کے نیچے رکھے ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس نے کیا کھایا ہے۔ ایسے افراد ہوشیاری کے ساتھ نسوار کھانا پسند کرتے ہیں اور اس ترتیب سے نسوار کھاتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کچھ منہ میں رکھا ہے۔