|
وائس آف امریکہ اسلام آباد کے دفتر سے جب میں بجٹ اجلاس کی کوریج کے لیے دوپہر تین بجے نکلا تو گرمی کی تپش سندھ کی گرمی کی یاد دلانے لگی۔
سرینا ہوٹل کے سنگنل پر پہنچا تو گاڑیوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ گاڑیوں کی رش سے نکل کر شاہراہ دستور پر آئے تو ایف بی آر آفس سے پارلیمنٹ کا راستہ سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہونے والے احتجاج اور دھرنے کے باعث بند تھا۔ پارلیمنٹ جانے کے لیے شاہرہ دستور کی دوسری سائیڈ کو استعمال کیا جا رہا تھا۔ جب پارلیمنٹ کی پارکنگ والے گیٹ پر پہنچے تو وہاں بھی گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ اسمبلی میں برسوں سے روز کے آنے جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں سکیورٹی عملے نے دور سے ہی جانے کا اشارہ کر دیا۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس کے شروع ہونے کا وقت چار بجے کا مقرر تھا۔ چار بجے سے 10 منٹ قبل اسپیکر ڈائس کے مائک کو اسمبلی عملے نے چیک کر کے تسلی کر لی کہ مائک کام کر رہا ہے۔
پارلیمانی روایات کے مطابق بجٹ تقریر شروع ہونے سے پہلے ہی ماضی کی طرح اس بار بھی وزیر خزانہ کی نشست پر ڈائس رکھ دیا گیا تھا، جس کے اوپر سرکاری ٹی وی پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور ای پی پی کے مائیک بھی رکھے ہوئے تھے۔قومی اسمبلی میں اس طرح کا ڈائس عموماً وزیر اعظم کی تقریر کے وقت لگایا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماضی کے مقابلے میں مالی سال 2024-25 کا بجٹ اجلاس اس لحاظ سے مختلف اور منفرد تھا کہ اس بار ماضی کی طرح بجٹ سے پہلے اراکین کی نشستوں پر بجٹ دستاویزات کے بنڈل نہیں رکھے گئے تھے۔ ماضی میں بجٹ اجلاس شروع ہونے سے کم سے کم ادھا گھنٹہ قبل بجٹ دستاویزات ہر رکن کی نشست پر رکھ دی جاتی تھیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اکثر تاخیر سے شروع ہوتا ہے، مگر اس بار بجٹ اجلاس ایک گھنٹے 51 منٹ کی تاخیر سے شروع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت کی اہم اتحادی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی ناراض تھی۔
پیپلزپارٹی نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ احتجاجاً قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو گی۔ پیپلزپارٹی کچھ روز سے یہ شکایت کر رہی تھی کہ بجٹ کے متعلق ان سے مشاورت بھی نہیں کی گئی ہے اور تجاویز بھی ںہیں لی گئیں ہیں۔
بائیکاٹ کے فیصلے کی تصدیق پاکستان پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری نے اجلاس شروع ہونے سے پہلے پانچ بجے کر دی، جس پر پریس گیلری میں اجلاس شروع ہونے کا انتظار کرنے والے روزنامہ ڈان کے بیورو چیف عامر وسیم نے پیپلز پارٹی کے ایسے فیصلے کو سیاسی بلیک میلنگ قرار دے دیا۔ ایک اور صحافی بولے کہ پیپلزپارٹی کا اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیوں کہ یہ حکومت پیپلز پارٹی کے ارکان کی بیساکھی پر کھڑی ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت حکومتی اتحاد میں کل اراکین کی تعداد 210 ہے جس میں سے اگر پیپلزپارٹی کے 68 اراکین کو نکال دیا جائے تو باقی 142 رہ جاتے ہیں۔ وفاق میں حکومت کو قائم رکھنے کے لیے بھی 169 ارکان درکار ہیں۔
SEE ALSO: اٹھارہ ہزار ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ؛ ٹیکس محصولات میں اضافے کا ہدفپریس گیلری میں صحافیوں کی بحث جاری ہی تھی کہ پیپلزپارٹی کے سینئر ارکان سید خورشید شاہ اور سید نوید قمر، ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کے ساتھ ایوان میں آ گئے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے پاس انہیں منانے کے لیے پہنچ گئے۔ مگر اس کے باوجود بلاول بھٹو اسمبلی میں نہیں آئے اور گھر روانہ ہو گئے۔
پیپلزپارٹی کی شازیہ مری نے وضاحت کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے صرف تین اراکین اجلاس میں ٹوکن شرکت کریں گے۔ باقی اراکین شریک نہیں ہوں گے۔
اس فیصلے سے لاعلم پیپلز پارٹی کے ممبر سحر کامران، عامر جیوا اور وہیل چیئر پر نواب یوسف تالپور اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے مگر انہیں سید نوید قمر اور اعجازجکھرانی نے پارٹی فیصلے سے آگاہ کر کے واپس بھیج دیا۔
پانچ بجکر 46 منٹ پر اپوزیشن لیڈر کی سربراہی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین پلے کارڈ لیے 'کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان ' کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان میں داخل ہوئے جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ 51 کی تاخیر سے شروع ہو گیا۔ مگر اس وقت تک بھی وزیر اعظم ایوان میں نہیں آئے تھے۔ تاہم وہ بجٹ تقریر شروع ہونے سے قبل پہنچ گئے تھے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کا آغاز 5 بجکر 59 منٹ پر کیا اور 6 بجکر 58 منٹ پر اپنی تقریر ختم کر دی۔
جیسے ہی بجٹ تقریر شروع ہوئی، سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے نعرے بازی اور احتجاج شروع کر دیا ۔اپوزیشن کے اکثر اراکین کے پاس عمران خان کی تصاویر والے پلے کارڈ تھے، جب کے کچھ اراکین نے شاہ محمود قریشی اور مراد سعید کی تصویریں بھی اٹھائی ہوئیں تھیں۔ اپوزیشن اراکین گو نواز گو کے نعرے لگانے کے ساتھ عمران خان کے حق میں بھی نعرے لگا رہے تھے۔
SEE ALSO: پاکستان کا اقتصادی سروے: اہم اہداف کے حصول میں ناکامی، معیشت میں بہتری کے دعوےحکومتی اراکین طارق فضل چودھری، وزیر اطلاعات عطا تارڑ، اور دیگر وزیر اعظم کی نشست کے پاس حصار بنا کے کھڑے ہو گئے تاکہ اپوزیشن اراکین ان کے طرف نہ بڑھ پائیں۔
اپوزیشن اراکین بجٹ بکس کے ساتھ ڈیسک بجاتے رہے اور بجٹ دستاویز پھاڑ کر پھنکتے رہے جس کے باعث اسپیکر کے۔ ڈائس اور اپوزیشن کی نشستوں کے درمیانی حصے پر سرخ رنگ کا قالین پیپرز کی سفید رنگ میں تبدیل ہو گیا۔ اپوزیشن کا احتجاج وزیر خزانہ کی تقریر کے آخر تک مسلسل جاری رہا، جب کہ اپوزیشن میں شامل جے یو آئی کے نور عالم خان اور پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی، وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران بجٹ دستاویزات پڑھنے میں مصروف دکھائے دیے۔
وزیر اعظم، خواجہ آصف، پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ، سید نوید قمر اور دیگر اراکین کو اپوزیشن کے شور اور احتجاج کے باعث ہیڈ فونز لگا کر تقریر سننی پڑی، تاہم وزیر خزانہ نے ہیڈ فون کے بغیر اپنی تقریر مکمل کی۔ ماضی میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، شوکت ترین، حفیظ شیخ بھی اپوزیشن کے شور سے بچنے کے لیے ہیڈ فون لگاتے رہے ہیں۔
نئے مالی سال کا ساڑھے 8 ہزار ارب روپے کے خسارے کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس 20 جون تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب بجٹ پر بحث 20 جون سے شروع ہو گی۔ ماضی میں بجٹ پیش ہونے کے بعد بحث کےلیے صرف دو دن کا وقفہ کیا جاتا تھا، لیکن اس مرتبہ عید کے باعث طویل وقفہ کیا گیا ہے۔