|
افغانستان کی ایک بریک ڈانسر,جنہوں نے اولمپک کھیل میں شرکت کا اپنا خواب پورا کرنے کےلیے افغانستان چھوڑ کر اسپین میں پناہ حاصل کی تھی ،میڈرڈ میں قیام کے تین سال بعد پناہ گزینوں کی ایک اولمپک ٹیم کی رکن کے طور پر پیرس گیمز میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں۔
بریک ڈانس، فن رقص اور ایکروبیٹکس کے امتزاج سے کھیل کے مقابلے میں اسٹریٹ ڈانس کی ایک شکل ہے جسے جولائی میں پہلی بار اولمپکس میں شامل کیا جائے گا، جواولمپکس میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوگا۔
1970 کی دہائی میں نیویارک کی سڑکوں پر آرٹ کی ایک قسم کے طور پر جنم لینے والے اسٹریٹ ڈانس میں سکسٹین بی ۔گرلز اور سکسٹین بی۔ بوائز ٹیمیں مقابلہ کر یں گی ۔
بی ۔ گرلز ٹیم کی اکیس سالہ افغان بریک ڈانسر منیزہ طالش اس موقع پر خوشی اور اداسی کے ملے جلے جذبات محسوس کررہی ہیں۔
میڈرڈ کے مضافاتی علاقے ویلیکاس کے ایک عوامی چوک میں اس کھیل کے تربیتی سیشن کے دوران منیزہ طالش نے رائٹرز کو بتایا،"میں دوسری افغان لڑکیوں کے ساتھ افغان ٹیم کا حصہ بن کر اولمپکس میں شریک دوسری ٹیموں کے ساتھ مقابلہ کرنا پسند کرتی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ،"میں بہت خوش ہوں کیونکہ کچھ چند ماہ پہلے تک یہ صرف ایک خواب تھا لیکن اب میں اپنے خواب کے اندر رہ رہی ہوں۔ میں خود کو دیکھ کر کہہ سکتی ہوں کہ میں یہاں ہوں، میں نے اسے پورا کر دیا ہے۔"
منیزہ نے رائٹرز کو ایک انٹرویو میں کابل میں اپنی کہانی سناتے ہوئے کہاکہ ، "جب میں نے آن لائن ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک آدمی صرف اپنے سرکے بل پر گھوم رہا تھا ... میں نے فوراً اپنے آپ سے کہا: ' میں اپنی زندگی میں ہہی کرنا چاہتی ہوں ' اور تین ماہ بعد مجھے تربیت شروع کرنے کے لیے کابل میں اس کھیل کا ایک کلب مل گیا ۔"
کابل میں ایک چھوٹے سے لیکن بریک ڈانس کے لیے پرجوش 56 ارکان پر مشتمل ایک کلب میں شامل واحد لڑکی کے طور پر ، منیزہ نے بتایاکہ ان کے اس شوق پر صرف ان کے خاندان نے ہی اعتراض نہیں کیا بلکہ جب افغانستان کی پہلی ’بی ۔گرل ٹیم‘کے بارے میں خبر پھیلی تو انہیں موت کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔
بہت سے قدامت پسند افغان ہر قسم کے رقص کو ناپسند کرتے ہیں اور خواتین کی جانب سے عوامی سطح پر شرکت پر تو اور بھی زیادہ اعتراض کرتے ہیں ، اور ان میں سے کچھ تو پر تشدد طریقے سے مخالفت کرتے ہیں ۔
منیزہ نے بتایا کہ " ہمارے کلب کو بم کی تین دھمکیاں موصول ہوئیں اور،پولیس نے ہمارے کلب پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کرنے کے بعدہمیں کلب بند کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اس سےنہ صرف ہمیں بلکہ اس علاقے کے لوگوں کو بھی ایک بڑا خطرہ لاحق تھا۔"
اور اگست 2021 میں، طالبان نےکابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعدموسیقی اور رقص کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر دی ۔
منیزہ نے کہا کہ، "طالبان کے آنے کے بعد میں نے موت کے خوف کی وجہ سے افغانستان نہیں چھوڑا۔ بلکہ اس لیے چھوڑا کہ بریک ڈانس میری زندگی ہے۔ میں اس وقت یہاں اس لیے ہوں کیوں کہ میں نے اپنے خواب کو پورا کرنے کا انتخاب کیا ہے۔"
منیزہ نے کہا کہ اسپین میں پناہ گزین کا درجہ ملنے سے پہلے انہوں نے اپنے کلب کے دوسرے ارکان کے ساتھ جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے تھے، پاکستان میں ایک سال گزارا تھا ۔
انہوں نے اپنی تربیت جاری رکھی لیکن ان کا ریفوجی اولمپک ٹیم سے کوئی رابطہ نہیں تھا ۔ پھر 2024 کے اوائل میں دوستوں کی کوششوں سے پناہ گزین اولمپک ٹیم نے منیزہ کو ڈھونڈ لیا۔
وہ انہیں میڈرڈ لائی اور پیرس اولمپکس میں انہیں ایک اسپاٹ دلوانے کے بعد ان کے لیے ہفتے میں چھ دن کی تربیت کو اسپانسر کیا۔
تقریباً اسی وقت ان کی والدہ ، دو بھائیوں اور ایک بہن کو بھی پناہ گزین کا درجہ دے دیا گیا اور وہ بھی میڈرڈ میں ان کے ساتھ آملے، جس سے منیزہ کو مزید ہمت اور حوصلہ ملا ۔
منیزہ نے کہا کہ ،"مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہی ہوں،وہ افغانستان کی خواتین، وہاں کی لڑکیوں کے لیے کچھ کر رہی ہوں۔ میں صرف باتیں نہیں کرنا چاہتی، میں وہاں جا کر کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ میں جو کہتی ہوں اسے کرنا بھی چاہتی ہوں۔"
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم