پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب پیر کو ہو رہا ہے جس کے لیے امیدواروں نے اتوار کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
اس انتخاب میں پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سردار ایاز صادق اور حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کے شفقت محمود کے علاوہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کے ایک رکن غازی گلاب جمال نے بھی اپنے کاغذات جمع کروائے ہیں۔
بظاہر حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو پارلیمانی جماعتوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور توقع کی جارہی ہے اس کے نامزد امیدوار ایاز صادق ایک بار پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہو جائیں گے۔
ایاز صادق نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھیں دیگر پارلیمانی جماعتوں نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
" اگر میں کامیاب ہوا۔۔۔۔ تو میں کسی کو، چاہیے وہ مجھے ووٹ دے یا نا دے ان کو ایک علیحدہ گروپ نہیں سمجھوں گا اور بطور اسپیکر تمام ارکان کو مساوی موقع دینے کی جو میری ذمہ داری ہے وہ میں ادا کرتا رہوں گا"۔
مئی 2013 کے عام انتخابات کے بعد ایاز صادق قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔
اس حلقے یعنی این اے 122 میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ایاز صادق کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے خلاف انھوں نے الیکشن ٹربیونل میں درخواست دائر کر رکھی تھی۔
22 اگست کو ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا جس میں ایک بار پھر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کو شکست دی۔
تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتی آئی ہے کہ مسلم لیگ ن مبینہ طور پر دھاندلی کے ذریعے حکومت میں آئی۔
حکومت تو اس الزام کو مسترد کرتی رہی ہے لیکن اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ عام انتخابات میں کسی منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔
تحریک انصاف کی طرف سے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اپنا امیدوار میدان میں اتارنے کے معاملے کو تجزیہ کار پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت کو کھلا میدان نہ دینے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخابات سے متعلق شکایات کے تناظر میں عمران خان کی جماعت ایوان کے اندار اور ایوان کے باہر ایاز صادق اور حکومت پر اپنی تنقید جاری رکھے گی۔
" اسپیکر تو وہ منتخب ہو جائیں گے لیکن میرا نہیں خیال کہ ان کے بارے میں تنازعات پاکستان کی سیاست میں ختم ہو ۔ ان کو (پارلیمان) میں اکثریت حاصل ہوگی وہ (اپنا) کردار تو ادا کرتے رہیں گے یہ ضرور ہے کہ (قومی) اسملی کے اندر اور باہر تحریک انصاف کی طرف سے ان پر تنقید ہوتی رہے گی اور باقی کا عرصہ وہ آرام سے نہیں گزار سکیں گے"۔
عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک بار پھر حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب کے نتائج پر اپنی شکایات لے کر الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے جا رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین اس سیاسی تناؤ کے باعث ملکی سیاست میں آئندہ آنے والے مہینوں میں بھی ہلچل دیکھنے میں آتی رہے گی۔