اگر صدر اوباما اور قانون ساز پہلی مارچ تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچ پاتے، تو امریکہ کی فوج کو بجٹ میں کافی زیادہ اور ازخود عمل میں آنے والی کٹوتیوں کے ایک سلسلے کا سامنا ہوگا، جو اگلے سات ماہ تک کے عرصےکے دوران46 ارب ڈالر تک کی مالیت کے برابر ہوں گی
واشنگٹن —
نیٹو کے اعلیٰ عہدے دار نےمشکل معاشی دور میں چند ارکان کی طرف سے اختیار کیے گئے انداز پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے رویے کےباعث سلامتی کا معاملہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
نیٹو سکریٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے متنبہ کیا کہ دفاعی اخراجات میں کٹوتی تشویش کا باعث ہے۔
راسموسن کے بقول، اِن حکومتوں سے میری یہ استدعا ہے کہ ایسا نہ ہونے دیں، کٹوتیوں کو روکیں۔ دوسرے یہ کہ کثیر ملکی تعاون کے ذریعے آپ اپنے موجودہ وسائل کو بہتر استعمال میں لائیں۔ تیسرے یہ کہ جب معیشتوں میں بہتری کے آثار نمودار ہوں تو اُس وقت دفاعی سرمایہ کاری میں پھر سے اضافہ کریں۔
راسموسن نے یہ بات جمعرات کے دِن برسلز میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب میں کہی۔
سبک دوش ہونے والےامریکی وزیر دفاع، لیون پنیٹا اِس وقت برسلز میں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیٹو ارکان کو خبردار کریں گے کہ امریکہ کے اپنے مالی مسائل کےباعث کسی بحرانی صورت ِحال میں اتحاد کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔
اگر صدر براک اوباما اور قانون ساز پہلی مارچ تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچ پاتے، تو امریکہ کی فوج کو بجٹ میں کافی زیادہ اور ازخود عمل میں آنے والی کٹوتیوں کے ایک سلسلے کا سامنا ہوگا، جو اگلے سات ماہ تک کے عرصے میں 46ارب ڈالر تک کی مالیت کے برابر ہوں گی۔ کٹوتیاں لاگو ہونے کی صورت میں، پنیٹا نے متنبہ کیا کہ فوج کے تیاری کے سلسلے میں ’سنگین نتائج‘ کا سامنا اور ’گہرے انحطاط‘ کی صورتِ حال درپیش آ سکتی ہے۔
امریکہ ایک طویل عرصے سے نیٹو ارکان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ مشترکہ دفاع کےسلسلے میں اٹھنے والے اخراجات میں اپنا زیادہ حصہ ڈالیں۔ امریکہ اتحاد کے اُن چند ممالک میں سےایک ہے جو اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو فی صد سے زیادہ دفاع کے لیے فراہم کرتا ہے۔
امریکہ کی طرح، برطانیہ بھی دفاع کی مد میں کٹوتی لانے کا سوچ رہا ہے۔ برطانوی وزیر دفاع فلپ ہیمنڈ نے جمعرات کو کہا کہ نیٹو ممالک کے پاس کوئی خاص متبادل نہیں ماسوائے اِس بات کے کہ وہ نئے معاشی حقائق کو قبول کرلے۔
جمعرات کو ہونے والی مشاورت کےبعد نیٹو کےسربراہ آندرے فوگ راسموسن نے بتایا کہ رکن ممالک نے اپنے حصے کے وسائل مجتمع کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا ہے۔
نیٹو سکریٹری جنرل آندرے فوگ راسموسن نے متنبہ کیا کہ دفاعی اخراجات میں کٹوتی تشویش کا باعث ہے۔
راسموسن کے بقول، اِن حکومتوں سے میری یہ استدعا ہے کہ ایسا نہ ہونے دیں، کٹوتیوں کو روکیں۔ دوسرے یہ کہ کثیر ملکی تعاون کے ذریعے آپ اپنے موجودہ وسائل کو بہتر استعمال میں لائیں۔ تیسرے یہ کہ جب معیشتوں میں بہتری کے آثار نمودار ہوں تو اُس وقت دفاعی سرمایہ کاری میں پھر سے اضافہ کریں۔
راسموسن نے یہ بات جمعرات کے دِن برسلز میں نیٹو کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب میں کہی۔
سبک دوش ہونے والےامریکی وزیر دفاع، لیون پنیٹا اِس وقت برسلز میں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیٹو ارکان کو خبردار کریں گے کہ امریکہ کے اپنے مالی مسائل کےباعث کسی بحرانی صورت ِحال میں اتحاد کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔
اگر صدر براک اوباما اور قانون ساز پہلی مارچ تک کسی سمجھوتے تک نہیں پہنچ پاتے، تو امریکہ کی فوج کو بجٹ میں کافی زیادہ اور ازخود عمل میں آنے والی کٹوتیوں کے ایک سلسلے کا سامنا ہوگا، جو اگلے سات ماہ تک کے عرصے میں 46ارب ڈالر تک کی مالیت کے برابر ہوں گی۔ کٹوتیاں لاگو ہونے کی صورت میں، پنیٹا نے متنبہ کیا کہ فوج کے تیاری کے سلسلے میں ’سنگین نتائج‘ کا سامنا اور ’گہرے انحطاط‘ کی صورتِ حال درپیش آ سکتی ہے۔
امریکہ ایک طویل عرصے سے نیٹو ارکان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ مشترکہ دفاع کےسلسلے میں اٹھنے والے اخراجات میں اپنا زیادہ حصہ ڈالیں۔ امریکہ اتحاد کے اُن چند ممالک میں سےایک ہے جو اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو فی صد سے زیادہ دفاع کے لیے فراہم کرتا ہے۔
امریکہ کی طرح، برطانیہ بھی دفاع کی مد میں کٹوتی لانے کا سوچ رہا ہے۔ برطانوی وزیر دفاع فلپ ہیمنڈ نے جمعرات کو کہا کہ نیٹو ممالک کے پاس کوئی خاص متبادل نہیں ماسوائے اِس بات کے کہ وہ نئے معاشی حقائق کو قبول کرلے۔
جمعرات کو ہونے والی مشاورت کےبعد نیٹو کےسربراہ آندرے فوگ راسموسن نے بتایا کہ رکن ممالک نے اپنے حصے کے وسائل مجتمع کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا ہے۔