روس مذاکرات سے قبل سرحد سے فوج ہٹائے، نیٹو

فائل

'نیٹو' کے سیکریٹری جنرل آندرے فوغ راسموسن نے کہا کہ یوکرین کی سرحد پہ موجود 40 ہزار روسی فوجی وہاں "کوئی تربیتی مشق نہیں کر رہے بلکہ حالتِ جنگ میں ہیں"۔
مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' نے کہا ہے کہ اگر روس یوکرین بحران پر مغرب سے مذاکرات کا خواہاں ہے تو اسے یوکرین کے ساتھ سرحد پر تعینات اپنے فوجی دستے واپس بلانا ہوں گے۔

جمعرات کو ایک پریس کانفر نس سے خطاب کرتے ہوئے 'نیٹو' کے سیکریٹری جنرل آندرے فوغ راسموسن کا کہنا تھا کہ یوکرین کی سرحد پہ موجود 40 ہزار روسی فوجی وہاں "کوئی تربیتی مشق نہیں کر رہے بلکہ حالتِ جنگ میں ہیں"۔

'نیٹو' کے رکن ملک جمہوریہ چیک کے دورے کے دوران دارالحکومت پراگ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آندرے فوغ راسموسن نے خبردار کیا کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف مزیدکسی فوجی کاروائی کے "سنگین اثرات برآمد ہوں گے اور روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں گی"۔

انہوں نے کہا کہ ماسکو حکومت کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ اپنے اقدامات کا الزام دوسروں پر عائد کرنا بند کرے اور کشیدگی کو ہوا دینے سے باز رہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر روس یوکرین کے بحران پر مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے پہلے اپنی سرحد پر جمع فوجی دستوں کو واپس بلانا چاہیے۔

'نیٹو' کے سربراہ کا یہ بیان یوکرین کے بحران پر چار فریقی مذاکرات کے اعلان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں امریکہ، روس، یوکرین اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے شریک ہوں گے۔

یورپی سفارت کاروں کے مطابق آئندہ جمعرات کو جنیوا میں ہونے والی اس بات چیت میں یوکرین میں جاری سیاسی کشیدگی اور کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اپنی پریس کانفرنس میں 'نیٹو' سربراہ نے روس پر یوکرین کے مشرقی علاقوں میں نسلی کشیدگی اور بدامنی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روسی حکومتی فوجی طاقت کے ذریعے یوکرین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے جس کا اسے کوئی اختیار نہیں۔

آندرے فوغ راسموسن نے واضح کیا کہ یوکرین میں ر وسی مداخلت کا کوئی "فوجی ردِ عمل" نیٹو ممالک کے زیرِ غور نہیں اور بحران سے نکلنے کا واحد راستہ سفارت کاری ہی ہے۔