پاکستان نیوی کے ایک سابق کمانڈو اور اُن کے بھائی کو کراچی میں مہران ایوی ایشن بیس پر حملے میں کردار ادا کرنے کے شبے میں اطلاعات کے مطابق پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے لیا ہے۔
سرکاری طور پر ان گرفتاریوں کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے البتہ زیرحراست افراد کے رشتہ داروں نے کہا ہے کہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سابق کمانڈو کامران احمد اور اُس کے بھائی کو گذشتہ جمعہ کو لاہور میں اُن کی رہائشگاہ سے اپنی تحویل میں لیا۔
کامران احمد کو دس سال قبل بحریہ سے نکال دیا گیا تھا اور وہ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔
اُن کے بھائی عمران احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ جب اُن کے دونوں بھائیوں (کامران احمدا ور زمان احمد) کو حراست میں لیا گیا تو وہ اور اُن کے والد اُس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار کامران کو جب ساتھ لے جانے لگے تو چھوٹے بھائی زمان نے اس کی وجہ جاننا چاہی جس پر اُسے بھی وہ لوگ ساتھ لے گئے۔
عمران نے بتایا کہ اُنھوں نے مقامی پولیس کو اس واقعہ سے آگاہ کیا لیکن اُن کے بقول پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کامران اور زمان نہ تو اُن کی تحویل میں ہیں اور نہ ہی یہ پولیس کو مطلوب ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ دس سال قبل کامران کو نیوی سے فارغ کر دیا گیا تھا ”یہ دو تین مرتبہ اوپر تلے چھٹیوں پر آیا ہے پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا، وہ دوبارہ گیا لیکن وہاں ایڈجسٹ نہیں ہوا۔ اُنھوں نے میڈیکل ان فٹ قرار دے کر اسے فارغ کیا ہوا ہے“۔
عمران نے کہا کہ اُس کا بھائی بے گناہ ہے اور اس کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ” مجھے پتہ ہے کہ اڑھائی تین سال سے وہ کراچی نہیں گیا ہے اور نہ ہی وہ لاہور میں ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اُس کا کسی جہادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ ہمارا خاندان مسجد وں اور گھروں پر حملہ کرنے پر والوں کو برا سمجھتا ہے “۔
نیوی کی فضائی تنصیب پر 22 مئی رات پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو مارنے اور اڈے پر دوبارہ قبضے کی بحالی کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن 16 گھنٹے تک جاری رہا۔ جدید خودکار ہتھیاروں سے لیس انتہائی تربیت یافتہ حملہ آوروں کے ساتھ لڑائی میں 10 اہلکار ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے تھے جب کہ سمندر کی حدود کی نگرانی سمیت کثیرالمقاصد دو قیمتی جہاز بھی اس حملے میں تباہ ہو گئے تھے۔
اس حملے کے بعد عسکری اُمور کے ماہرین اس شبے کا اظہار کر رہے تھے کہ نیوی کے اڈے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو بیس کے اندر سے بھی مدد حاصل تھی ۔
اکتوبر 2009ء میں راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے والوں میں بھی ایک سابق فوجی اہلکار ملوث تھا۔ اس واقعے میں حملہ آوروں نے چالیس سے زائد فوجی اہلکاروں اور سول ملازمین کو یرغمال بنا لیا تھا اور اُن کے اس حملے کی پسپائی میں فوج کو24 گھنٹے لگے تھے جس میں نو حملہ آوروں کی ہلاکت کے علاوہ گیارہ فوجی اوریرغمال بنائے گئے تین افراد بھی مارے گئے تھے۔