جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے لاہور میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے ان کی رہائش گاہ جاتی عمرا میں ملاقات کی ہے جہاں سابق وزیر اعظم طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہائی کے بعد مقیم ہیں۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ نوازشریف سے ملاقات میں سیاسی صورتِ حال پر بھی تبادلۂ خیال ہوا اور ایک دو روز میں وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ملیں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ایک انتقامی ادارہ بن چکا ہے جس سے متعلق اب سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے ملک کی معاشی صورتِ حال اور مہنگائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ سیاسی رابطے جاری رہنے چاہئیں۔
انہوں نے عمران حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمران خان کی نہیں بلکہ ایک جعلی حکومت ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ اس حکومت کے درپردہ قوت کب تک اسے کھینچے گی۔
'سیاسی رابطے جاری رہنے چاہئیں'
پیپلزپارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دانوں کے درمیان رابطے ہوتے رہتے ہیں جنہیں جاری رہنا چاہیے۔
چوہدری منظور کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کالعدم تنظیموں پر دو مختلف نظریات رکھتی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان کسی بھی الائنس کے سلسلے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ نیب ایک جانب دار ادارہ بن چکا ہے۔ تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے مقدمات ہوں تو نیب خاموش رہتا ہے۔ نیب قوانین پر بہت پہلے مسلم لیگ ن سے بات کی تھی، لیکن انہیں اس وقت ہماری بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
'نوازشریف کی بیماری پر جھوٹ بولا گیا'
نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی ملاقات پر اپنے ردِ عمل میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نوازشریف کی بیماری پر مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ میں واویلا مچایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اب ایمبولینس کی بجائے مولانا فضل الرحمن سیاسی آکسیجن دینے جاتی عمرا پہنچے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کے معاملے میں جھوٹ پر عدالتوں کو نوٹس لینا چاہیے۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان رابطوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ان کی ایک بار پھر دونوں جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیوں کو جنم دیں گی۔