اسرائیل میں نیتن یاہو کے سخت ترین حریف کو حکومت بنانے کی دعوت

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو۔ فائل فوٹو

اسرائیلی صدر رُوَن رِولِن نے وزیر اعظم نیتن یاہو کےسخت ترین مخالف کو نئی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی ہے۔ اس سے قبل منگل کی رات گئے تک نیتن یاہو حکمران اتحاد بنانے میں ناکام رہے تھے۔وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے پاس 28دن کی مہلت تھی کہ وہ حکمران اتحاد تشکیل دے سکیں، جو 5 مئی کو ختم ہو گئی۔

جس کے بعد اسرائیل کے صدر رُوَن رِولِن نے کہا تھا کہ وہ بدھ کے روز حکومت بنانے کیلئے پارلیمان میں دیگر جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔

بدھ کو اسرائیل کے صدر رون رولن نے اعلان کیا ہے کہ لوئے لیپد کا انتخاب کیا گیا ہے، جو سابق وزیر خزانہ ہیں اور جن کی اعتدال پسند یش ایتد جماعت نے 23 مارچ کے انتخابات میں نیتن یاہو کی دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی کے بعد سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔

اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں رولن نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ کو 120 کے پارلیمان میں 56 کی اعلانیہ حمایت حاصل ہے، جب کہ حکومت بنانے کے لئے ارکان کی زیادہ تعداد درکار ہوگی۔

رولن نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ لوئے لیپد حکومت سازی کر سکتے ہیں، جس کو اسرائیلی پارلیمان، نیسٹ سے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا،باوجود اس کہ اس ضمن میں کئی ایک مشکلات حائل ہیں۔

لیپد چار ہفتوں کے اندر ممکنہ اتحادیوں کی مدد سے حکومت تشکیل دیں گے۔ ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ جلد از جلد ایک وسیع بنیاد حکومتی اتحاد تشکیل دیں گے، تاکہ اسرائیلی عوام کی خدمت کی جاسکے۔

یاد رہے کہ اسرائیل کے حالیہ انتخابات میں نیتن یاہو کی جماعت کو اپنے انتہائی قدامت پسند اتحادیوں کو ساتھ ملا کر بھی پارلیمانی انتخابات میں 52 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔

اسرائیلی پارلیمان کی، جسے کنیسٹ بھی کہا جاتا ہے، کُل 120 نشستیں ہیں۔ نیتن یاہو کی مخالف منقسم جماعتوں کو مجموعی طور پر 57 نشستیں حاصل ہیں، جبکہ کسی بھی فریق کو پارلیمان میں حکومت بنانے کے لیے درکار 61 نشستیں حاصل نہیں ہو سکیں۔

اگر کوئی جماعت ایوان میں 61 ارکان کی حمایت حاصل نہ کر سکے تو دوبارہ انتخاب لڑنا ہوتا ہے۔

نیتن یاہو کی ناکامی کے بعد، اب صدر رِولِن نے ان کے مخالف سیاستدان کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہےکہ وہ حکومت بنائیں۔

امکانی امیدواروں میں لوئے لیپِد شامل ہیں جن کی اعتدال پسند یش ایٹِڈ جماعت، نے نیتن یاہو کی قدامت پسند لِیکُوڈ جماعت کے بعد سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔

صدر رٕولِن کے پاس یہ آپشن بھی ہے کہ وہ پارلیمان سے کہیں کہ وہ خود اپنے ارکان میں سے اپنا وزیر اعظم منتخب کریں۔

اس سال 23 مارچ میں ہونے والے انتخابات، گزشتہ 2 سال کے دوران چوتھے انتخابات تھے کیونکہ چاروں الیکشنز میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔

حکومت سازی میں ناکامی کے دوران، نیتن یاہو نے متعدد مخالفین سے بھی مذاکرات کئے تھے، جبکہ ایک چھوٹی اسلامی عرب جماعت کے لیڈر کی جانب بھی ہاتھ بڑھایا تھا۔

قدامت پسند نظریات رکھنے والی مذہبی جماعتوں، روایتی اعتدال پسند اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی جماعتوں نے بھی، اسرائیل کی 20 فیصد عرب اقلیتوں کی نمائمدگی کرنے والی جماعتوں سے بھی رجوع کیا ہے، جس سے ممکنہ طور پر پہلی مرتبہ مسلمان عربوں کو کابینہ میں جگہ مل سکے گی۔

بنیامین نیتن یاہو سن 2009 سے وزیر اعظم چلے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے 1990 میں بھی انہوں نے 3 سال کیلئے یہ منصب سنبھالا تھا۔ گزشتہ 2 سال سے جاری سیاسی تعطل کے دوران وہ وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن رہے ہیں۔

نیتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا ہے، جن کیلئے وہ عدالت میں مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے کسی بھی کرپشن میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ واضح پارلیمانی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اگر سیاسی جماعتوں میں ڈیڈلاک دور نہ ہوا تو اسرائیل کو پانچویں الیکشن کی جانب جانا پڑ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کے 1948 میں قیام کے بعد سے کبھی بھی کوئی ایک جماعت سادہ اکثریت حاصل کر کے حکومت نہیں بنا سکی ہے اور مختلف جماعتوں کے اتحاد حکومت بناتے رہے ہیں۔