|
نیٹ فلکس کی حالیہ ہٹ سیریز ’ہیرامنڈی‘ 1940 کے عشرے کی ڈیرہ دار طوائفوں کی پرشکوہ زندگیوں اور طاقت ور حلقوں میں اثر و رسوخ کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن اسے پاکستان کے جس علاقے سے منسوب کیا گیا ہے، وہاں کی روشنیاں دھندلی پڑ چکی ہیں اور جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک خواتین کی زندگی فلم سے بہت مختلف ہے۔
یہ سیریز آٹھ حصوں پر مشتمل ہے اور اس میں تقسیم سے پہلے کے لاہور کے شاہی محلے کی تصویر کشی کی گئی ہے، جو کبھی ثقافت اور سیاسی سازشوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
بالی وڈ کے روایتی شاندار اسٹائل میں دولت کی نمود و نمائش کے ساتھ فلمائی گئی اس سیریز میں خواتین کو اشرافیہ کے ساتھ مل کر برطانوی راج سے ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد کے پس منظر میں بااثر اتحاد قائم کرتے اور دشمنیاں پالتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ہیرا منڈی کہلانے والا لاہور کا یہ علاقہ اب ویران ہو چکا ہے۔ 65 سالہ شگفتہ یہیں کی رہنے والی ہیں اور وہ جسم فروشی سے منسلک رہ چکی ہیں۔ شناخت چھپانے کے لیے یہاں ان کے اصلی نام کی بجائے شگفتہ کا فرضی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ یہ جگہ ویسی نہیں ہے جیسی ہیرامنڈی نظر آتی ہے۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب یہاں کی لڑکیاں صرف اپنے جسموں کی نمائش کرتی ہیں۔ اب ہیرا منڈی میں کچھ باقی نہیں رہا۔
شگفتہ اپنے خاندان کی سات نسلوں کی خواتین کے بارے میں جانتی ہیں جنہوں نے ہیرامنڈی میں طوائف کے طور پر زندگی بسر کی۔ انہوں نے 12 سال کی عمر سے ہی رقص اور جسم فروشی شروع کر دی تھی۔
مغلوں کے دور میں ڈیرے دار طوائفوں کا راج چلتا تھا اور ان کے رقص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ نیٹ فلکس کی اس سیریز میں برطانوی حکومت کے دور کی دولت اور شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ شگفتہ کہتی ہیں کہ ایسا کبھی بھی نہیں تھا۔
اس سیریز میں زیورات کی چمک دمک اور رنگ آمیزی پر مبنی کہانی نے اپنےپہلے تین ہفتوں میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور سوشل میڈیا نے بھی اس میں گہری دلچسپی لی۔ بھارت اور پاکستان میں ،خاص طور پر ٹک ٹاک پر روایتی ملبوسات میں اپنے لبوں کو اس سیریز کے گانوں اور مکالموں سے ملا کر بنائی گئی کئی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ اور کئی ویلاگرز بھی اس پر بات کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔
ان ویڈیوز سے قطع نظر اب یہ سوال بھی کہ آیا یہ سیریز پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں جسم فروشی کے گرد بنے جال توڑ سکے گی، بحث مباحثوں کا موضوع بن گیا ہے۔
نوین زمان ایک ثقافتی محقق ہیں۔ وہ ہیرا مندی کو حاصل ہونے والی اس نئی توجہ پر بہت پرجوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ ایک بار پھر طوائف کلچر کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ درحقیقت وہ ان موضوعات کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں جنہیں گزرے برسوں میں شجر ممنوعہ سمجھا جاتا تھا۔
نوین زمان کا کہنا ہے کہ پرانے رابطے پھر سے جوڑے جا رہے ہیں۔
پندرھویں صدی سے اٹھارویں صدی کے نصف کا مغلیہ دور ڈیرے دار طوائفوں کی طاقت اور ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ لیکن برطانوی اقتدار کے دوران وکٹورین اخلاقیات کے دباؤ سے مقامی اشرافیہ پر خواتین کے اثر و رسوخ کو دھچکا لگا اور ہیرا منڈی کو ریڈ لائٹ ایریا سمجھا جانے لگا۔
پاکستان کی آزادی کے کئی عشروں کے بعد صدر جنرل ضیا الحق کی آمریت نے سخت گیر اسلامی اصلاحات نافذ کیں جس نے جسم فروشی کے کاروبار کو مزید سایوں میں دھکیل دیا۔
اور پھر 2009 میں پولیس نے ہیرامنڈی پر کریک ڈاؤن کر کے ان چوباروں کو بند کروا دیا اور رقص و موسیقی کی محفلوں کے ساتھ جسم فروشی کا دھندہ بھی ٹھپ ہو گیا۔
38 سالہ نور سمجھتی ہیں کہ نیٹ فلکس کی سیریز ہیرامنڈی سے جسم فروشی سے تعلق کا داغ نہیں دھل سکتا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس شعبے میں خواتین کو معزز نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی ان کی عزت نہیں کرتا، چاہے وہ کتنی ہی متقی اور پرہزگار کیوں نہ بن جائیں، کبھی انہیں عزت نہیں ملے گی، لوگ ہمیشہ انہیں طوائف ہی کہتے رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر کے دوسرے علاقوں میں ہیرا منڈی سے زیادہ سکیس ورکرز موجود ہیں، لیکن ہیرا منڈی کے نام کی بری شہرت کی وجہ سے یہ جگہ اب بھی بدنام ہے۔
بھارت کی ایک کلاسیکی رقاصہ منجری چترویدی 15 برسوں سے اس فن کی قدیم عظمتں پانے کی جستجو کر رہی ہیں۔ اپنے نئے دہلی کے اسٹوڈیو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے نیٹ فلکس کی اس سیریز کو ایک اچھوتا موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ان خواتین کے لیے ایک مختلف داستان تخلیق کی جا سکتی ہے جو صدیوں سے اپنے کام کی وجہ سے بدنامی میں گھری ہوئی ہیں۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرح کا سینما بھی اسے آرٹ کی بجائے جنسیت کے طور پر سامنے لا رہا ہے جو اسے دوبارہ بدنامی میں دھکیل دے گا۔
(اس آرٹیکل کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)