پاکستانی فلم میکرز جہاں روم کوم اور ایکشن سے بھرپور فلمیں بنانے میں مصروف ہیں وہیں حال ہی میں اصل واقعے پر مبنی فلم 'گنجل' ریلیز ہوئی ہے۔
ہدایت کار شعیب سلطان کی فلم 'گنجل' کی کہانی 90 کی دہائی میں اقبال مسیح نامی چائلڈ لیبر کے خلاف آواز اٹھانے والے لڑکے کے قتل کے گرد گھومتی ہے جسے 12 سال کی عمر میں نامعلوم افراد نے مریدکے کے علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس نے اس قتل کے الزام میں ایک شخص کو پکڑا تو ضرور تھا لیکن عدالت نے ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اسے بری کر کے معاملے کو حادثہ قرار دے دیا تھا۔
فلم میں احمد علی اکبر نے شہباز بھٹی نامی صحافی کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے طور پر اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔
'گنجل' 15 دسمبر کو پاکستان بھر میں ریلیز ہوئی تھی جس کا دورانیہ 135 منٹ ہے۔ فلم میں احمد علی اکبر کے ساتھ ساتھ آمنہ الیاس، ریشم، احمد علی بٹ اور سید محمد علی نے کام کیا ہے۔
فلم کے آغاز میں آنے والے انتباہ میں تو بتا دیا گیا تھا کہ اس کی کہانی فرضی ہے لیکن اقبال مسیح کے کیس اور اس فلم کی کہانی میں جو مماثلت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فلم اصل واقعے پر مبنی ہے۔
فلم میں جس کردار کو عرفان مسیح بنا کر دکھایا گیا ہے وہ دراصل اقبال مسیح ہے جب کہ مریدکے کو مریدوالا کی جگہ دکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آرگنائزیشن فور بونڈڈ لیبر رائٹس کو بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ اور اس کے سربراہ اعجاز اللہ خان کو احسان اللہ خان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
'گنجل' کی کہانی جس طرح بیان کی گئی ہے وہ مشہور جاپان کی فلم 'راشومون'سے متاثر لگتی ہے جس پر ہالی وڈ میں 'وینٹیج پوائنٹ' سمیت کئی فلمیں بن چکی ہیں۔
فلم 'راشومون ایفیکٹ' میں بھی ایک ہی کہانی کو مختلف کرداروں کے زاویوں سے بیان کیا گیا تھا اور گنجل میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ایک طرف لقمان نامی لڑکے کے بیان سے ظاہر ہوتا کہ عرفان مسیح کو گولی حادثاتی طور پر لگی تو فیروز نامی عینی شاہد کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان کو منصوبے کے تحت قتل کیا گیا تھا۔
احمد علی اکبر کا کردار شہباز بھٹی اس معاملے کی ہر طرح سے جانچ کرتا ہے۔ وہ کارپٹ ڈیلرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار اور اس این جی او سے بھی رابطے میں رہتا ہے جس نے مقتول کے خاندان کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا ہوتا ہے۔
اس کہانی کے ذریعے نہ صرف ملک کے عدالتی نظام پر تنقید کی گئی ہے بلکہ پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔
یہی نہیں فلم کے ذریعے چائلڈ لیبر یعنی بچوں سے مشقت کرانے کے معاملے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کے فقدان پر بھی بات کی گئی ہے۔
احمد علی اکبر شہباز بھٹی کے کردار میں بھی خوب جچے ہیں جو کرسچن کمیونٹی کا ایک فرد ہے اور ایک ایسے اخبار میں کام کرتا ہے جس کی حکومت مخالف پالیسی کی وجہ سے اسے اشتہارات نہیں ملتے۔
فلم میں آمنہ الیاس نے اس این جی او کی سرگرم کارکن کا کردار ادا کیا ہے جو عرفان مسیح کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہوتی ہے۔
نوجوان اداکار سید محمد علی نے عرفان مسیح کا کردار بہت اچھی طرح نبھایا ہے۔
اداکارہ ریشم نے بھی اس فلم کے ذریعے اپنا کم بیک کیا ہے اور وہ بحیثیت ایک اخبار کی مدیر متاثر کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
معروف کامیڈین احمد علی بٹ بھی اس فلم میں ایک سنجیدہ رول میں نظر آئے ہیں اور احمد علی اکبر کے ساتھ ان کے دو سین قابلِ تعریف ہیں جس میں وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔
فلم کے ہدایت کار شعیب سلطان نے اگرچہ پہلی مرتبہ فلم بنائی ہے لیکن انہوں نے جس عمدگی سے کہانی بیان کی ہے اس سے یہ کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ ان کی پہلی کاوش ہے۔
'گنجل' میں تمام اداکاروں کو ان کے کردار کے مطابق کاسٹ کیا گیا جب کہ مکالمے بھی موضوع اور وقت کی مناسبت سے تھے۔ فلم میں گانوں کی کمی کو بیک گراؤنڈ میوزک نے پورا کیا جب کہ طوالت اس کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ ہے۔
اگر 135 منٹ کے بجائے فلم کا رن ٹائم 100 سے 105 منٹ کے درمیان ہوتا تو اسے دیکھ کر زیادہ مزہ آتا اور اس کے شوز کی تعداد بھی زیادہ ہوتی۔
بائیس دسمبر کو دنیا بھر میں ریلیز ہونے والی 'ایکوا مین' کے سیکوئل سے صرف ایک ہفتے پہلے 'گنجل' ریلیز کر کے پروڈیوسرز نے نادانی کا ثبوت دیا ہے کیوں کہ سپر ہیرو فلم کے سامنے پاکستانی فلم کے چلنے کا چانس کم ہی ہوتا ہے۔
فلم میں کہیں کہیں ڈرامے کا ٹچ نظر آتا ہے۔ البتہ کہانی کا بار بار 1992، 1995 اور 1997 میں گھومنا شائقین کو پریشان ضرور کرے گا کیوں کہ جب تک وہ اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ کہانی ایک ٹائم لائن پر چل رہی ہے تو دوسری ٹائم لائن سامنے آجاتی ہے۔
اس کے علاوہ فلم کے وہ سین جو کھیتوں میں فلمائے گئے ہیں ان میں روشنی کی کمی آرٹ فلموں کے چاہنے والوں کو بھلے پسند آئے لیکن کمرشل سنیما میں اتنا اندھیرا شائقین کو پسند نہیں آئے گا۔ اسی طرح مقامی لہجے میں پنجابی زبان کا زیادہ استعمال بھی شائقین کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
لو بجٹ ہونے کی وجہ 'گنجل' شاید باکس آفس پر پروڈیوسرز کے پیسے ریکور کر لے لیکن فلم کو ہٹ ہونے کے لیے تین گنا بزنس درکار ہوتا ہے جو اس لیے بھی مشکل ہے کیوں کہ سنیما انڈسٹری اس وقت بحران کا شکار ہے اور ملک بھر میں موجود 145 میں سے کئی اسکرینیں فی الوقت بند ہیں۔