پاکستان میں دیوبندی مدارس کی سب سے بڑی تنظیم 'وفاق المدارس العربیہ' کی جانب سے دو مدارس کا الحاق ختم کرنے کے فیصلے کو مبصرین حکومت کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے رواں برس مارچ میں مسالک کی بنیاد پر مدارس کے متعدد نئے بورڈز متعارف کرانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں ابتدائی طور پر پانچ بورڈز تشکیل دیے گئے تھے جس میں رواں ماہ مزید دو کا اضافہ ہوا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے مدرسہ بورڈز کی تشکیل سے حکوت کا مقصد ملک میں پہلے سے فعال مختلف مسالک کے دینی مدراس کے پانچ بورڈوں کی اجارہ داری ختم کرنا ہے۔
البتہ تعلیمی امور کے ماہرین مدارس کے ایک ہی بورڈ کی تشکیل پر زور دے رہے ہیں تاکہ ملک میں مسلکی شناخت کا بحران ختم ہو۔
مدراس کے نئے بورڈز کے قیام کے حکومتی اقدامات پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے دو ماہ تک خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن 23 مئی کو ایک اہم اجلاس میں یہ اعلان سامنے آیا کہ نئے سرکاری بورڈز سے الحاق کرنے والے مدارس کو وفاق المدارس کے بورڈ سے نکالا جائے گا۔
وفاق المدارس العربیہ کے رہنما اور دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا انوار الحق کی صدارت میں لاہور کے مشہور مدرسے جامعہ اشرفیہ میں ہونے والے اس اجلاس میں وفاق کی مجلسِ عاملہ اور مجلس شوریٰ کے اراکین کے ساتھ ساتھ دیوبندی مکتبِ فکر کی تمام نمائندہ جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
اجلاس کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے وفاق المدارس العربیہ اور دیگر مسالک کے مدرسہ بورڈوں کے مقابلے میں متعدد متوازی بورڈز کی منظوری کے عمل پر گفتگو کی گئی۔
اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ذاتی مصروفیات کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔ البتہ دارالعلوم کراچی کے سربراہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکریٹری مولانا محمد حنیف جالندھری، کالعدم اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی اور ملک بھر سے آئے ہوئے دیگر اہم مذہبی اور سیاسی شخصیات شریک ہوئیں۔
وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان مولانا طلحہ رحمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ جو مدارس حکومت کی طرف سے منظور کیے گئے نئے مدرسہ بورڈ سے الحاق کریں گے انہیں وفاق المدارس سے الگ کر دیا جائے گا۔ لہذا ایسے مدارس کا وفاق المدارس العربیہ سے الحاق ختم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس کے تمام شرکا نے تنظیم پر غیر مشروط اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور ہر محاذ پر بورڈ کے قائدین کے شانہ بشانہ کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ 10 مئی کو وفاقی حکومت نے کراچی کے دو بڑے اور معتبر دیوبندی مدارس جامعہ بنوریہ العالمیہ اور جامعتہ الرشید پر مشتمل ایک نیا مدرسہ بورڈ 'مجمع العلوم اسلامیہ' تشکیل دیا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر نئے مدارس بورڈز کیوں بنائے گئے ہیں؟اسی طرح جماعت اشاعت توحید السنتہ (جسے خیبرپختونخوا کے مقامی زبان میں پنج پیری مکتبۂ فکر کہا جاتا ہے) نامی تنظیم کے مدارس پر مشتمل بورڈ کو 'وحدت المدارس' کا نام دیا گیا۔
دو نئے مدرسہ بورڈز کی تشکیل کے بعد پاکستان میں دینی مدارس کے بورڈز کی کل تعداد 10 سے بڑھ کر 12 ہو گئی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مجمع العلوم اسلامیہ اور وحدت المدارس کے قیام سے وفاق المدارس العربیہ کے رہنماؤں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔
مجمع العلوم اسلامیہ میں شامل کراچی کے دونوں مدارس جامعہ بنوریہ العالمیہ اور جامعتہ الرشید دیوبندی مسلک کے بڑے مدرسوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ مذکورہ مدارس اپنا اثر و نفوذ استعمال کر کے وفاق المدارس العربیہ سے مزید مدارس کو توڑ کر نئے بورڈز میں شامل کرلیں گے۔
وحدت المدارس دراصل جماعت اشاعت توحید السنتہ (پنج پیری مکتبۂ فکر) کے مدارس پر مشتمل ہے جو مجموعی طور پر دیوبندی مکتبِ فکر کا حصہ ہے مگر عقائد کے لحاظ سے سخت افکار رکھتے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ، باجوڑ کے اہم رہنما مولوی فقیر اور خیبر ایجنسی کے شدت پسند رہنما منگل باغ بھی پنج پیری مکتبِ فکر یا اس کے قریب قریب سوچ کے حامل تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مدرسہ بورڈ کیا کرتے ہیں؟
مدرسہ بورڈ ایک وفاقی تعلیمی بورڈ کی طرح کام کرتا ہے جس کی بنیادی ذمے داریوں میں اپنے ہی مکتبِ فکر کے مدارس کی رجسٹریشن، نصاب سازی اور تعلیمی نگرانی کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے امتحانات کا انعقاد اور اسناد جاری کرنا شامل ہے۔
ان کی جاری کردہ اسناد کو حکومت عصری تعلیم کے مختلف اسناد کے متوازی تسلیم کرتی ہے۔ مگر طلبا کے لیے لازمی مضامین اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان کے پرچے پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
مثلاً مدرسے کی شہادت ثانویہ عامہ (دو سال دورانیہ) کی سند میٹرک، شہادت ثانویہ خاصہ (دو سال دورانیہ) کی سند ایف اے، شہادت عالیہ کی سند (دو سال دورانیہ) بی اے اور شہادت عالمیہ کی سند (دو سال دورانیہ) ایم اے کے متوازی سمجھتی جاتی ہے۔
مدارس کو مسلکی بنیاد پر مدرسہ بورڈ بنانے کی ضرورت مدارس میں طلبہ کو اپنے عقائد اور مکتبِ فکر کے مطابق پڑھائے جانے والے نصاب کی تیاری کی وجہ سے پیش آئی ہے۔ ہر مکتبِ فکر کے مدرسہ بورڈ کے تحت نصاب کمیٹی اپنے ہی مکتبِ فکر کے مدارس کے لیے یکساں نصاب تیار کرتی ہے۔
پہلے سے موجود مدرسہ بورڈ
پاکستان میں پہلے ہی مسلک کی بنیاد پر مدارس کے پانچ بورڈز موجود تھے جن میں وفاق المدارس العربیہ (دیوبندی مکتب فکر)، وفاق المدارس الشیعہ (شیعہ مکتبِ فکر)، تنظیم المدارس اہلسنت (بریلوی مکتبِ فکر)، وفاق المدارس السلفیہ (اہلحدیث مکتبِ فکر) اور رابطۃ المدارس الاسلامیہ (جماعت اسلامی مکتبِ فکر) شامل ہیں۔
پاکستان میں مدارس کی سرکاری سطح پر اعداد و شمار تو دستیاب نہیں۔ البتہ مختلف مدرسہ تنظیموں اور محققین سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ 21565 مدراس میں ساڑھے 28 لاکھ طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔
اسی طرح تنظیم المدارس اہلسنت سے وابستہ 9616 مدارس میں 13 لاکھ طلبہ و طالبات، وفاق المدارس السلفیہ سے وابستہ 1400 مدارس میں 40 ہزار طلبہ و طالبات اور وفاق المداراس الشیعہ سے وابستہ 550 مدراس میں 19 ہزار طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جب کہ 1300 مدراس تنظیم رابطہ المدارس سے وابستہ ہیں۔
جولائی 2005 میں لندن بم دھماکوں میں ایک حملہ آور کا تعلق پاکستانی مدرسے سے ثابت ہونے کے بعد پرویز مشرف حکومت کی مدارس کے خلاف مبینہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے مدارس کے پانچوں بورڈز نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان (آئی ٹی ایم پی) کے نام سے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین مفتی منیب الرحمٰن کر رہے ہیں۔
’مقابلے کی فضا‘
وفاقی حکومت کے تحت قائم پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عامر طاسین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نئے مدرسہ بورڈ بنانے کے عمل سے مدرسہ نصاب اور تدریسی عمل بہتر بنانے کے لیے ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور زیادہ سے زیادہ مدارس بھی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے سے موجود پانچ مدارس بورڈ کے مقابلے میں حکومت کی جانب سے مارچ میں جو نئے مدرسہ بورڈ قائم کیے گئے ہیں، وہ پہلے ہی سے ملک بھر میں اپنے مدارس چلا رہے تھے اور ان کے بورڈ بھی موجود تھے مگر ان کی قانونی حیثیت نہیں تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر عامر طاسین بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈز آف گورنرز کے رکن بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وفاق المدارس العربیہ سے منسلک مدارس کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسی لیے نئے مدرسہ بورڈز، خصوصا 'مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان' کے قیام سے ان پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
ان کے بقول،’’جن مدرسہ بورڈز کے نصاب بہتر ہوں گے، وہ طلبہ کی بڑی تعداد کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوں گے۔"
ڈاکٹر عامر طاسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مدارس کے نئے مدرسہ بورڈ بنانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ مدارس کی بڑی تعداد حکومت سے رجسٹرڈ ہوجائیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر یہ بتایا جاسکے کہ مدارس کی بڑی تعداد قومی دھارے میں شامل ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے ’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘ کو ختم کر کے مدرسہ ڈائریکوریٹ قائم کیا ہے اور اب مدرسہ بورڈوں کے تحت چلنے والے تمام مدارس مدرسہ ڈائریکوریٹ کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کے پاپند ہوں گے۔
انہوں نے وفاقی وزارتِ تعلیم کے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ حکومت اب تک 6000 سے زائد مدارس کی رجسٹریشن کرا چکی ہے۔
مارچ میں قائم کیے گئے نئے مدرسہ بورڈ
وفاقی حکومت نے رواں برس مارچ میں پانچ نئے مدرسہ بورڈز قائم کیے تھے جن میں اتحاد المدارس العربیہ (دیوبندی مکتبۂ فکر) ، اتحاد المدارس الاسلامیہ (بریلوی مکتبۂ فکر)، نظام المدارس پاکستان (بریلوی مکتبۂ فکر)، مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ (اہلحدیث مکتبۂ فکر) اور وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ (شیعہ مکتبۂ فکر) شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مارچ میں قائم کیے گئے یہ پانچ مدرسہ بورڈ دو ماہ کے عرصے میں پہلے ہی سے قائم مدرسہ بورڈز سے الحاق شدہ مدارس کو اپنی جانب لانے میں ناکام رہے ہیں۔
وفاق المدارس کا اعلان
وفاق المدارس کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں شریک کراچی کے ایک مدرسے کے مہتمم نے بتایا کہ اجلاس میں نئے تشکیل کردہ بورڈوں مجمع العلوم اسلامیہ اور وحدت المدارس میں شامل مدارس کے مہتممین کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر جامعۃ الرشید کے مفتی عبدالرحیم اور جماعت اشاعت توحید السنتہ کے مولانا طیب طاہری سمیت ان کے کسی بھی نمائندے نے شرکت نہیں کی۔
البتہ جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم نے اجلاس میں شرکت کی اور اپنا مؤقف پیش کیا کہ ان کے مدرسے نے بیرونِ ممالک کے طلبہ کے داخلوں میں مشکلات کے حل کے لیے نیا بورڈ تشکیل دیا مگر ان کا مدرسہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ ملحق رہے گا۔ تاہم ان کے مؤقف کو اجلاس کے شرکا نے مسترد کر دیا۔
مدرسے اور عصری علوم
مدارس کے نئے بورڈز کے قیام کے جواز کے لیے ان سے منسلک مدارس کے مہتممین بورڈز سے زیادہ مدارس میں عصری تعلیم دینے کے دلائل پر زور دیتے ہیں۔
جامعتہ الرشید کراچی سے وابستہ علما کا کہنا ہے کہ ان کا مدرسہ گزشتہ 20 برسوں سے طلبہ کو جدید عصری علوم و فنون سکھا رہا ہے جب کہ نیا بورڈ 'مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان' وفاق المدارس العربیہ کے برعکس مدارس میں ایک ایسا نظام لانے کا خواہاں ہے جو قدیم و جدید علوم کا امتزاج رکھتا ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے بورڈ کے تحت مختلف اسلامی جامعات کے نظام سے اخذ کرکے نیا نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے گا۔
جامعتہ الرشید کے مفتی محمد نے وفاق المدارس العربیہ کے نام ایک خط میں بھی یہ دلائل پیش کیے ہیں۔ البتہ وفاق المدارس العربیہ کے رہنما کہتے ہیں کہ دارالعلوم کراچی اور جامعہ اشرفیہ کی طرح جامعتہ الرشید کو کلیۃ الشریعہ کی ڈگری جاری کرنے کی خصوصی حیثیت ملنے کے باوجود حکومت کی حمایت سے نیا بورڈ تشکیل دینا وفاق المدارس العربیہ اور مدارس کے خلاف سازش ہے۔
وفاق المدارس العربیہ کے رہنماؤں نے اس حوالے سے مخالف بیانات دینے سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے کراچی کے ایک مدرسے کے مہمتم نے وائس آف امریکہ سے نام نہ بتانے کی شرط پر بات چیت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’عصری تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ عصری تعلیم دینے کے لیے مدارس کا بورڈ بنایا گیا۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ مذہبی رجحانات کے حامل والدین ثواب اور مذہب کی خدمت کے نقطہ نظر سے اپنے بچوں کو مدارس میں صرف اور صرف مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے بھیجتے ہیں۔
ان کے بقول ’’ان والدین کو اگر اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلوانی ہوتی تو سیکڑوں اسکول اور کالجز موجود ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تدریس، امامت اور خطابت کے لیے وفاق المدارس العربیہ کی سند کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔
کیا نئے بورڈز کے قیام سے وفاق المدارس العربیہ کمزور ہوگا؟
مدارس کے امور سے باخبر اسلام آباد میں مقیم محقق سبوخ سید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ’’حکومت کا مدارس کے نئے بورڈز تشکیل دینے کا بنیادی مقصد پہلے سے موجود مدارس کے بورڈ، خصوصاً وفاق المدارس العربیہ کی اجارہ داری ختم کرنا اور اس کا متبادل سامنے لانا ہے۔"
ان کے بقول، ’’حکومت کی جانب سے تشکیل دیے جانے والے مدارس کے نئے بورڈ بننے سے مدارس کو درپیش مسائل، جیسے بینک اکاؤنٹس کھولنے میں دشواری وغیرہ حل ہونے میں مدد ملے گی۔‘‘
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مدارس اپنے اندرونی مسائل، جیسے اساتذہ کی تنخواہوں کے طے نہ ہونے اور نصاب کے انتخاب وغیرہ کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاق المدارس العربیہ میں تنظیمی انتخابات کے بجائے سینیارٹی، بڑے مدرسے سے وابستگی جیسی 'خصوصیات' کو دیکھ کر عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کافی مدارس پہلے ہی اس سے بدظن تھے۔
خیال رہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے حالیہ تنظیمی انتخابات جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی صدر کے لیے منتخب کرانے کی قیاس آرائیوں کے سبب جنوری میں مؤخر ہو گئے تھے جو چار ماہ گزر جانے کے باوجود اب تک منعقد نہ ہو سکے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر محمود اشرفی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مدراس کے نئے وفاق یا بورڈز کا اجراء موجودہ حکومت کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے۔
ان کے بقول، ’’اگر پاکستان میں 25 مختلف اسکول سسٹم ہیں تو مدارس کے سسٹم کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ مدرسے کے نام پر جو بلیک میلنگ کا ایک عنصر پایا جاتا تھا وہ بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس اقدام سے مدارس کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ مدارس کی تعلیم کو وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک کیا ہے کیوں کہ اس سے قبل مدارس کی تعلیم وزارتِ تعلیم کے ساتھ نہیں بلکہ مدرسے کے وفاق کی جانب سے دی جانے والی سند کے ساتھ منسلک تھی۔
ایک ہی بورڈ کیوں ضروری؟
سبوخ سید کا کہنا ہے کہ حکومت کو مسلک کی بنیاد پر نئے بورڈ تشکیل دینے کے بجائے ایک ہی بورڈ تشکیل دینا چاہیے اور اس کے لیے اگر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں قائم کردہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو فعال کر کے اسی کے ذریعے مدارس کی رجسٹریشن یا اسناد جاری کی جاتی تو یہ ایک احسن قدم ہوتا۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی مدارس کے نئے بورڈز کے حکومتی اقدامات کو قوم کو مزید فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم کرنے کے مترداف قرار دیا ہے۔