ایران کے نئے اعلیٰ سفارت کار، حسین امیر عبداللہیان عرب ریاستوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، تاکہ تہران کے عرب اور خلیجی پڑوسیوں کے ساتھ طویل عرصے سے منجمد تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے۔
یہ کوشش ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یمن میں جاری پراکسی جنگ میں ایران اور سعودی عرب دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
ایران کی علاقائی پراکسیز میں اس وقت شدت پیدا ہوئی جب اس نے رواں ہفتے اتوار کو یمن میں عدن کے نزدیک سعودی کنٹرول کے العند ایئربیس پر حملہ کیا اور منگل کی صبح ڈرون سے سعودی حدود میں واقع البھا ایئربیس پر بم گرائے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اس حملے سے 8 افراد زخمی ہوئے، جس کا الزام سعودیوں نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر لگایا۔
حوثیوں کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
یہ واقعات بغداد میں ایک حالیہ علاقائی سربراہی اجلاس میں عبداللہیان کی جانب سے عرب مخالف بیانات کے بعد ہوئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اعلیٰ سفارتی اجتماع میں عبداللہیان کی پہلی شرکت کو علاقائی تعاون کی اپیل کے طور پر دیکھا گیا۔ کچھ عرب رہنماؤں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ عبداللہیان عربی بول کر اپنے سامعین کو جیتنے کی کوشش کر رہے تھے۔
SEE ALSO: ایران کے نئے نامزد وزیر خارجہ حسین عبداللہیان کون ہیں؟عبداللہیان کے عراقی میزبان، تہران اور اس کے بڑے علاقائی مخالفین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے سفارتی پیش رفت کی خواہش کا اعلانیہ اظہار چاہتے تھے۔ عبداللہیان نے بھی ان علاقائی کشیدیوں کا الزام بیرونی طاقتوں پر عائد کیا، جس میں ان کا اشارہ بظاہر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب تھا۔
عبداللہیان نے کہا کہ ایران مذاکرات اور علاقائی کوششوں کی بنیاد پر امن کے حصول کے لیے اپنی کوششیں مسلسل جاری رکھے گا۔ اور یہ کہ ایران کو توقع ہے کہ یہ ممالک آخر یہ تسلیم کر لیں گے کہ اس کا واحد راستہ خطے کے ممالک کے درمیاں باہمی اعتماد ہی ہے، جس کی بنیاد ٹھوس مذاکرات اور بیرونی مداخلت سے احتراز پر ہو۔
یہ واضح نہیں کہ کیا عبداللہیان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دیرینہ موقف کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اتوار کے روز ان کا شام کے دارالحکومت دمشق کا دورہ بظاہر شام، عراق، لبنان اور یمن جیسی عرب ریاستوں پر ایران کے تسلط کے حوالے سے علاقائی رنجشوں کو کم کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ العند ایئر بیس اور ابھا ایئر پورٹ پر حملے بھی ریاض کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں حائل نظر آتے ہیں۔
ایران کے ایک تجزیہ کار اور سابق سفارت کار مہرداد خوانساری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سعودی عرب کو اس کے باوجود ایران کے بارے میں اپنے موقف میں نرمی لانے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن اس کے لیے ایک مکمل تباہی بنتا جا رہا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ایرانی مدد کے بغیر وہ یمن سے باہر نہیں نکل سکتے اور اس وقت تک انہیں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ایران حوثیوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ نہیں لیتا۔
خوانساری کا مزید کہنا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اور وہ جس لائن پر چل رہے ہیں، اسے وہ بالکل پسند نہیں کرتے، بنیادی طور پر انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن میں مقیم خلیجی تجزیہ کار تھیوڈور کاراسک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں نئے ایرانی وزیر خارجہ اس بارے میں جلدی دکھا رہے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ کاراسک کا کہنا تھا کہ عبداللہیان نے اپنے سابق مرشد جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد کے ہوائی اڈے کے باہر اس جگہ جا کر خراج عقیدت پیش کیا جہاں گزشتہ سال جنوری میں امریکی ڈرون حملے میں وہ ہلاک ہوئے تھے۔ سلیمانی ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے سربراہ تھے۔
کاراسک نے یہ بھی کہا کہ عبداللہیان نے اتوار کو بغداد کانفرنس کے فوٹو سیشن میں تفویض کردہ جگہ پر موجود نہ ہو کر پروٹوکول کو بظاہر اس لیے توڑا کیونکہ "وہ شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ ایک گرمجوش ملاقات کے لیے فوری دمشق روانہ ہونا چاہتے تھے''۔
کاراسک نے کہا کہ اس اقدام کو "مشرق وسطیٰ کے کچھ تجزیہ کار جارحانہ سمجھ رہے ہیں اور شاید وہ خود کو ایران کے نئے صدر رئیسی کی سوچ اور لہجے کے مطابق ترتیب دے رہے ہیں ۔"
عبداللہیان اور ایران کے نئے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ایڈمرل علی شمکانی دونوں ہی کے سلیمانی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ اس لیے بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ ان کی تیار کردہ علاقائی حکمت عملی کو تبدیل نہیں کریں گے۔
کاراسک کا کہنا ہے کہ عبداللہیان کے جارخانہ طرز عمل کے پیش نظر مغرب کے لیے ایک ایسے وقت میں یہ ایک بہت دلچسپ پہلو ہے کہ ایران کی نئی ٹیم کے ساتھ وہ اس کے جوہری پروگرام کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔