عالمی ادارہ صحت نے اس ہفتے ڈینگی اور ملیریا کی دو نئی ویکسینز کی منظوری دے دی ہے اور ملیریا کی نئی ویکسین کے بارے میں کہا ہےکہ اس سے آنے والے برسوں میں پانچ سال سےکم عمر کے لاکھوں بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں ۔
ملیریا کی نئی ویکسین جو آر 21 کے طور پر معروف ہے ، برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ ہے ۔ اسے پہلے ہی گھانا اور برکینا فاسو میں استعمال کیا جارہا ہے۔
جب کہ ڈینگی کی ویکسین جاپان کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی ٹاکیڈا نے تیار کی ہے جو لوگوں کو ہسپتال میں داخلے سے بچانے کے کلینیکل ٹرائلز میں تقریباً 84 فیصد تک موثر ثابت ہوئی ہے ۔
ملیریا کی ویکسین کے بارے میں ادارے کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین اگلے چند ماہ میں افریقی ملکوں کو بھیجی جاسکتی ہے۔امپیرئل کالج لندن میں متعدی بیماریوں سے متعلق ایک ماہر وبائیات پروفیسر عذرا غنی نے کہا ہے کہ آر 21 کی نئی منظوری سے اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ پورے سب صحارا افریقہ میں ویکسی نیشن ہو سکے گی اور ملیریا کے خطرے سے دوچار بہت سے مزید بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔
انہوں نے کہا کہ“ ہمارا اندازہ ہے کہ اگر یہ ویکسین پورے بر اعظم میں اسی سطح پر دی جائے جو ہم نے اس پر عمل درآمد کی ریسرچ میں اب تک دیکھا ہے تو یہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی ملیریا سے ہونےوالی تقریباً ایک تہائی اموات کو روک سکتی ہے ۔ ”
ڈبلیو ایچ او کے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ کی چئیر پرسن ڈاکٹر حنا نوہنیک کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین توقع ہے کہ طلب اور رسد کاخلا پر کر دے گی اوربڑی تعداد میں،ممکنہ طور پر تسلسل سے فراہم کی جائے گی ۔
پیر کے روز انہوں نے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر متعارف کرائی گئی ملیریا ویکسینز ہر سال ہزاروں بچوں کی زندگیاں بچا سکتی ہیں
افریقی ملکوں میں کلینیکل ٹرائلز
اس ویکسین پر کئی افریقی ملکوں میں کلینیکل ٹرائلز ہو رہے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہام گیبریسئس نے پیر کو جنیوا میں ایک پریس کانفرنس میں اس کی منظوری کا اعلان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں ملیریا مخصوص موسموں میں پھیلتا ہے وہاں ویکسین کی تین خوراکوں کے ایک سلسلے کے بعد 12 ماہ کے عرصے میں ملیریا کی علامتوں سے متعلق واقعات میں 75 فیصد تک کمی ہوئی۔ تیسری خوراک کے بعدملیریا سے بچاؤ کا سلسلہ جاری رہا توایک سال بعد چوتھی خوراک دی گئی۔
عالمی ادارہ صحت نے 2021 میں ملیریا کی پہلی ویکسین کی منظوری دی تھی ۔ آر ٹی ایس ایس نامی یہ ویکسین برطانیہ کی ادویات سازی کی کمپنی جی ایس کے نے تیار کی تھی۔
ٹیڈروس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ، ملیریا کے ایک محقق کے طور پر میں اس دن کا خواب دیکھا کرتا تھا جب ہمارے پاس ملیریا کے خلاف ایک محفوظ اور موثر ویکسین ہو گی ۔ اب ہمارے پاس دو ویکسینز ہیں ۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ ان دونوں ویکسینز کے تاثیر میں بہت کم فرق ہے ۔ تاہم نئی آر 21 ویکسین بنانے میں سستی ہے اور لگ بھگ دو سے چار ڈالر میں ایک خوراک تیار ہو جاتی ہے ۔ اور ایک مریض کو چار خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
نئی ویکسین کوپہلے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پہلے ہی سالانہ 100 ملین خوراکیں تیار کر رہا ہے اور وہ اس تعداد کو دوگنا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ 2021 میں ملیریا کے 247 ملین کیسز ہوئے اور لگ بھگ6 لاکھ 19 ہزار اموات ہوئیں ۔95 فیصد کیسز اور اموات افریقہ میں ہوئیں ۔ مرنےوالوں میں بیشتر پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔
ڈاکٹر عذرا غنی نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ نئی ویکسین متعارف کرا کر ہم اس میں کمی لاسکتے ہیں اور 2030 تک ملیریا میں 90 فیصد کمی کے ان اہداف کو حاصل کر سکتے ہیں جو ڈبلیو ایچ او نے طے کئے تھے ۔
ڈینگی بخار
ڈبلیو ایچ او نے پیر کے روز ڈینگی بخار کے خلاف ایک نئی ویکسین کی بھی منظوری دی ہے جو ٹراپیکل لاطینی امریکہ اور ایشیائی ملکوں میں مچھروں سے پیدا ہونےوالی عام بیماری ہے ۔ جاپانی ادویات ساز ملٹی نیشنل کمپنی ٹاکیڈا کی تیار کردہ یہ دوا لوگوں کو ہسپتال میں داخلے سے بچانے کی کلینیکل ٹرائلز میں تقریباً84 فیصد تک موثر ثابت ہوئی ہے۔"
SEE ALSO: ڈینگی مچھر کے مقابلے میں اینٹی ڈینگی مچھر تیار کر لیے گئےڈینگی گرم مرطوب علاقوں میں عام ہے اور اس میں متاثرہ شخص کو تیز بخار، سر درد ، متلی ، قے اور پٹھوں میں درد ہوتا ہے اور انتہائی سنگین کیسز میں اندرونی طور پر خون بہنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں انتباہ کیا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سےمچھر سے پھیلنے والا ڈینگی ، زیکا ، چکن گونیا اور زرد بخار جیسے وائرس زیادہ تیزی اور وسعت سےپھیل رہے ہیں۔
حکومت کی ڈائریکٹریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کے مطابق بنگلہ دیش میں اس سال اب تک 778 لوگ ہلاک اور ایک لاکھ 57 ہزارایک سو 72 افراد ڈینگی انفیکشن میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے نے کہا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے کیسز رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ اس سے قبل اموات کی سب سے زیادہ تعداد 2022 میں سامنے آئی تھی جب پورے سال کے دوران 281 لوگوں کی موت کی رپورٹ کی گئی تھی۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ اس نے بنگلہ دیش میں ماہرین متعین کر دیے ہیں ، اور ادارہ مرض کی نگرانی سخت کرنے اور لیبارٹری کی صلاحیت میں اضافے اور متاثرہ کمیونیٹیز سے رابطے بڑھانے میں حکام کی مدد کررہا ہے ۔
( اس خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)