رسائی کے لنکس

مچھروں سے بچنے کا ایک اور طریقہ۔۔۔ رنگ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مچھروں سے بچنے کے بہت سے طریقے ہیں، آپ مچھر بھگانے والی کوائل سلگا سکتے ہیں، ایک مخصوص برقی لیمپ جلا سکتے ہیں، مچھر دانی لگا سکتے ہیں، جسم پر مچھر دں کو دور رکھنے والا سپرے کر سکتے ہیں، کچھ اور نہیں تو دھواں ہی سلگا سکتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں مچھروں کو دور رکھنے کے اور بھی بہت سے طریقے مستعمل ہیں، لیکن ہم آپ کو اس کا ایک بہت ہی آسان حل بتائیں گے اور وہ ہے رنگ۔

ایک حالیہ سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مچھر اپنا شکار ڈھونڈنے میں رنگ سے مدد لیتے ہیں اور وہ سب سے پہلے سرخ یا سرخی مائل رنگ کی جانب لپکتے ہیں۔

یہ بہت ہی ننھا سا پتنگا، دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں لوگوں کو بیمار کرنے اور ہزاروں جانیں لینے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے کاٹے سے ملیریا، ڈینگی، زرد بخار، چکن گونیا اور زیکا جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ مچھروں کی افزائش کے موسم میں تو یہ امراض صحت کے حکام اور انتظامیہ کے لیے بڑا مسئلہ بن جاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے بیمار پڑنے سے زندگی کےمعمولات میں خلل پڑتا ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ صرف مادہ مچھر ہی خون چوسنے کے لیے کاٹتی ہے جب کہ بے چارے نر مچھر اپنی ساری عمر پودوں پر ہی منڈلاتے گزار دیتے ہیں۔

نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مادہ مچھر کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ اپنا شکار ڈھونڈنے کے لیے چار چیزوں سے مدد لیتی ہے۔ پہلی چیز آپ کی سانس ہے، وہ سانس میں شامل کاربن ڈائی اکسائیڈ کی بو ہے جسے ہم اور آپ محسوس نہیں کر سکتے۔ دوسری چیز آپ کا پسینہ اور آپ کے جسم کا درجہ حرارت ہے جو آپ تک پہنچنے میں مچھر کی راہنمائی کرتا ہے۔

اس تحقیق کے سینئر مصنف اور واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری ریفل نے کہا ہے کہ مچھرکو آپ تک لانے میں ایک چوتھی چیز بھی شامل ہے جسے اب تک نظرانداز کیاجاتا رہا ہے اور وہ ہے رنگ۔جی ہاں سرخ رنگ، سرخ یا سرخی مائل رنگ مچھر کو اپنی جانب بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ریفل کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ چاہے آپ کی جلد کی رنگت صاف ہو، گندمی ہو یا سیاہی مائل ہو، لیکن اپنے اندر خون کی موجودگی کی وجہ سے وہ مچھر کو سرخی مائل دکھائی دیتی ہے۔

مچھروں کی مدد سے ڈینگی کے خاتمے کی کوشش
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:07 0:00

مچھروں کے کاٹنے کی عادات اور اس سے منسلک پہلوؤں پر تحقیق کے لیے ریفل نے ایک خاص قسم کا ٹیسٹ چیمبر استعمال کیا، جس میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس، انسانی ہاتھ جیسی چیز اور کئی ٹکڑے ڈالے گئے جن پر مختلف رنگ کیے گئے تھے۔ گویا چیمبر کے اندر مچھروں کے کاٹنے کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا گیا تھا۔ تحقیق میں شامل سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ مچھروں نے دوسرے رنگوں کو زیادہ تر نظرانداز کیا اور ان کی توجہ کا مرکز سرخ یا اس سے ملتی جلتی رنگت والا ٹکڑا تھا۔

ریفل کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں مختلف پہلوؤں سے کئی تجربات کیے گئے جن سے یہ پتا چلا کہ مادہ مچھر جب شکار کے لیے نکلتی ہے تو سب سے پہلے اپنی سونگھنے والی حس سے کام لیتی ہے۔ جب اسے کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کی بو محسوس ہوتی ہے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ شکار کہیں قریب ہی ہے۔ وہ بو کی سمت آگے بڑھتی ہے اور اس کے بعد وہ زیادہ تر اپنی دیکھنے کی حس یعنی آنکھوں سے کام لیتی ہے اور اگر اسے سرخ رنگ کی جھلک پڑتی ہے تو سب سے پہلے اسی جانب لپکتی ہے۔

لیبارٹری میں مچھروں پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو
لیبارٹری میں مچھروں پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو

ریفل کہتے ہیں کہ سرخ رنگ کی جانب متوجہ ہونے کی بنیادی وجہ اس کی ویو لنگتھ ہے۔ یہ رنگ دور سے ہی نمایاں طور پر نظر آ جاتا ہے۔ ٹریفک کے اشاروں میں بھی یہ سرخ بتی اس لیے استعمال کی جاتی ہے کہ وہ دور سے نظر آتی ہے، اور دوسرا یہ کہ خون کی رنگت بھی سرخ ہی ہوتی ہے۔

ریفل کہتے ہیں کہ ابھی اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے،لیکن اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مچھروں کے کاٹے سے بچنے کا ایک اور طریقہ رنگ کا استعمال بھی ہے۔

XS
SM
MD
LG