جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سردار لطیف کھوسہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور ملک کے سینئر قانون دان ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ پیپلز پارٹی کی مقتول چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی اور قانونی مشیر رہے ہیں اور محترمہ کی زندگی میں انہیں اور ان کے خاوند اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف اندرونِ و بیرونِ ملک دائر مقدموں میں قانونی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی کئی اہم اور تاریخی مقدموں کے سلسلے میں پیش ہوچکے ہیں اور ان کا شمار وکلاء برادری کے سرگرم رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔
وہ تین بار لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں جبکہ گزشتہ دس سال سے لگاتار پاکستان بار کونسل کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کا بھی رکن رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس تحریک کے ابتدائی مرحلے کے دوران صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل رہے اور پولیس تشدد بھی برداشت کیا تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سردار لطیف کھوسہ نے عدلیہ بحالی کی تحریک سے فاصلہ اختیار کرلیا۔ اس دورا ن ان پر معزول ججز خصوصاً چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔
19 اگست 2008 کو سردار لطیف کھوسہ کو ملک محمد قیوم کی جگہ اٹارنی جنرل آف پاکستان مقرر کیا گیا۔ اٹارنی جنرل کے عہدے پر ان کی تعیناتی کے بعد ان پر کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کے کئی الزامات عائد کیے گئے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک سابق اہلکار منصور شاہ کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے اس کا کیس "سیٹل" کرانے کیلئے اس سے ججز کے نام پر تیس لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ پر لگنے والے اس الزام کی ابتدائی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ نے کی۔ تاہم بعد ازاں یہ کیس پاکستان بار کونسل کو بھجوادیا گیا جہاں یہ تاحال زیرِ سماعت ہے۔ ان الزامات کے باعث سردار لطیف کھوسہ کو اٹارنی جنرل کے عہدے سے 10 اکتوبر 2009 کو ہٹادیا گیا۔
بعد ازاں انہیں فروری 2010 میں وزیرِ اعظم کا مشیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی مقرر کیا گیا تاہم ان پر ایک بار پھر اختیارات سے تجاوز اور کرپشن کے الزامات عائد ہونے پر وزیرِ اعظم گیلانی کی جانب سے جولائی 2010 انہیں مشیر کی حیثیت سے حاصل اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔
اس دوران ان کے بارے میں یہ اطلاعات بھی میڈیا میں گردش کرتی رہیں کہ ان کی وزیرِ اعظم گیلانی کے ساتھ "ورکنگ ریلیشن شپ" قائم نہیں ہوسکی اور دونوں کے درمیان مختلف امور پر واضح اختلافات موجود ہیں۔
ایوانِ صدر کے قریب سمجھے جانے والے سردار لطیف کھوسہ نے بعدمیں ستمبر 2010 میں وزیرِاعظم کے مشیر کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ پیش کردیا جسے قبول نہیں کیا گیا۔ تاہم بعد ازاں این آر اوپر دئیے گئے فیصلے کیخلاف حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے روبرو اپیل دائر کرنے کیلئے بحیثیت وکیل ان کے انتخاب کے بعد ان کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران سردار لطیف کھوسہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت کئی اہم مقدمات میں عدالت کی معاونت بھی کرتے رہے ہیں۔
منگل کو صدر آصف علی زرداری کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ کو اپنے ہی سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہونے والے سلمان تاثیر کی جگہ گورنر پنجاب مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ وہ صوبہ پنجاب کے 33 ویں گورنر ہوں گے۔
پنجاب کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے سردار لطیف کھوسہ کی تقرری کا محتاط انداز میں خیر مقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ "آئین اور قانون" کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔