اہم کرکٹرز کی آئی پی ایل میں مصروفیت؛ پاکستان سیریز کے لیے نئے کیویز میدان میں اُتریں گے

  • نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان میں کئی بڑے نام شامل نہیں ہیں۔
  • کین ولیمسن سمیت کئی کھلاڑی آئی پی ایل کھیل رہے ہیں۔

نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے 16 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن بلیک کیپس کے پاکستان میں موجود مداح اس بار بھی کئی نامور کھلاڑیوں کو ایکشن میں نہیں دیکھ سکیں گے۔

دورۂ پاکستان کے لیے جس کیوی اسکواڈ کا اعلان ہوا اس کی قیادت مائیکل بریس ویل کریں گے جب کہ فن ایلن، مارک چیپمین، جوش کلارکسن، جیکب ڈفی، ڈین فاکس کرافٹ، بین لسٹر اور کول مک کونچی بھی اس اسکواڈ کا حصہ ہوں گے۔

کیوی کپتان کو اس سیریز مین ایڈم ملن، جمی نیشم، بین سیئرز، ٹم سائفرٹ اور ایش سودھی کی خدمات بھی حاصل ہوں گی۔ امکان ہے کہ اس دورےمیں ٹم رابن سن اور ول اورورک پہلی مرتبہ نیوزی لینڈ کے لیے انٹرنیشنل میچ کھیلیں گے۔

18 اپریل سے شروع ہونے والی پانچ میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز میں جو نو اہم کھلاڑی شامل نہیں ہوں گے ان میں اسٹار آل راؤنڈر رچن رویندرا، کین ولیمسن اور ٹرینٹ بولٹ کے ساتھ ساتھ ٹم ساؤتھی، ٹام لیتھم اور ول ینگ شامل ہیں۔

ٹام لیتھم کی سیریز میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات نجی ہیں، ٹم ساؤتھی کو آرام دیا گیا ہے جب کہ ول ینگ کاؤنٹی کرکٹ میں مصروفیت کی وجہ سے اسکواڈ کا حصہ نہیں۔

اس کے علاوہ باقی تمام کھلاڑی اس وقت بھارت میں جاری انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں شرکت کی وجہ سے پاکستان نہیں آ رہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔

نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کو جون میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاریوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

مسلسل دو سال میں دوسری بار پاکستان آنے والی کیوی ٹیم میں اسٹار کھلاڑیوں کی جگہ وہ کھلاڑی شامل ہیں جنہیں انڈین پریمیئر لیگ میں کانٹریکٹ نہیں ملا۔

آئی پی ایل مقابلوں میں اب تک صرف تین کیوی کھلاڑی ہی ایکشن میں نظر آئے ہیں جن میں سے ڈیرل مچل اور رچن رویندرا نے چنئی سپر کنگز اور ٹرینٹ بولٹ نے راجستھان رائلز کی نمائندگی کی ہے۔

باقی تمام کھلاڑی جس میں چنئی سپر کنگز کے اسکواڈ میں موجود ڈیون کونوے اور مچل سینٹنر، گجرات ٹائٹنز کا حصہ بننے والے کین ولیمسن، لکھنؤ سپر جائنٹس کے میٹ ہنری، رائل چیلنجرز بنگلور کے لوکی فرگوسن اور سن رائزرز حیدرآباد میں شامل گلین فلپس نے اب تک اس سیزن کا کوئی میچ نہیں کھیلا ہے۔

گزشتہ سال بھی نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان پر صورتِ حال کچھ ایسی ہی تھی جس میں دونوں ٹیموں کے درمیان ون ڈے سیریز ڈرا ہوئی تھی جب کہ ٹی ٹوئنٹی معرکہ پاکستان نے چار ایک سے اپنے نام کیا تھا۔

اپریل 2023 میں ہونے والے مقابلوں میں کیوی اسکواڈ کی قیادت کین ولیمسن کی جگہ ٹام لیتھم نے کی تھی۔ ولیمسن اس وقت بھی آئی پی ایل میں مصروف تھے جہاں فیلڈنگ کے دوران زخمی ہونے کی وجہ سے وہ پوری لیگ بھی نہیں کھیل سکے تھے۔

اُس اسکواڈ میں ٹم ساؤتھی، گلین فلپس، مچل سینٹنر، ڈیون کونوے، فن ایلن، مائیکل بریسویل اور لوکی فرگوسن شامل بھی نہیں تھے جن کی جگہ ہنری شپلی، چیڈ بوئز، ڈین کلیور، کول مک کونچی اور بلیئر ٹکنر کو اسکواڈ میں جگہ ملی تھی۔

کیا انٹرنیشنل ٹیمیں پاکستان میں ہونے والی سیریز کو اہمیت نہیں دیتیں؟

یہ پہلا موقع نہیں جب نیوزی لینڈ یا کسی بھی انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ نے اپنے اہم کھلاڑیوں کے بغیر پاکستان ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا ہو، ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔

سن 2001 میں جب نائن الیون کا واقعہ ہوا، اس وقت بھی نیوزی لینڈ ٹیم پاکستان کے دورے پر آنے والی تھی جسے بعد میں دو سال میں دو مختلف دوروں کے ذریعے مکمل کیا گیا۔

گو کہ بھارت، انگلینڈ اور سری لنکا نے 2001 سے 2009 کے درمیان پاکستان آ کر کئی سیریز کھیلیں، لیکن آسٹریلیا نے اپنے دوروں کے لیے کبھی متحدہ عرب امارات تو کبھی سری لنکا کا بطور متبادل وینیو انتخاب کیا۔

پاکستان میں امن و امان کی اس وقت خراب صورتِ حال کی وجہ سے پہلے اسے 2008 میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی سے بھی محروم کیا گیا۔ رہی سہی کسر مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے نے پوری کردی جس کے بعد ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کوئی بھی بڑی ٹیم پاکستان نہیں آئی۔

اس دوران فرنچائز کرکٹ نے دنیا بھر میں اور بالخصوص بھارت میں زور پکڑا اور پہلے سیزن میں تو پاکستان سمیت تمام ممالک کے کھلاڑیوں نے اس میں شرکت کی۔ اس وقت آئی پی ایل کو دنیا کی سب سے بڑی فرنچائز لیگ سمجھا جاتا ہے اور اس میں شرکت کے لیے زیادہ تر کھلاڑی اپنا کلینڈر خالی ہی رکھتے ہیں۔

پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے آئی پی ایل کے دروازے پہلے سیزن کے بعد سے بند ہیں، اسی لیے پی سی بی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس ونڈو کو خالی نہ جانے دیا جائے اور وہ انٹرنیشنل ٹیموں کو پاکستان مدعو کرتی ہیں۔

ماہرین کی رائے میں کھلاڑیوں کی انٹرنیشنل کرکٹ پر فرنچائز کرکٹ کو فوقیت کی سب سے بڑی وجہ کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانا ہے۔