امریکہ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ملازمتوں میں 'ہائبرڈ' نظام، یعنی کبھی گھر سے، تو کبھی آفس سے کام، دفاتر میں کام کے طریقہ کار کو بہت حد تک تبدیل کر دے گا۔
امریکی کمپنی مائیکروسافٹ کی جانب سے ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 70 فیصد ملازمت پیشہ افراد عالمی وبا کے بعد سے شروع ہونے والے کام کے ایسے انداز کو برقرار رکھنا چاہیں گے، جس میں وہ گھر اور دفتر دونوں جگہوں سے بھی کام کر سکتے ہیں۔
لیکن اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 65 فیصد افراد کام کی جگہوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی چاہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں کام کا ہائیبرڈ یعنی ملا جلا طرز عمل اختیار کیا جائے گا، یعنی کبھی گھر سے تو کبھی آفس سے کام کا شیڈیول لوگوں کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔
عالمی وبا کے بعد عالمی اداروں اور کمپنیوں کو یہ علم ہو چکا ہے کہ گھر سے کام بھی تعمیری ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے بہت سی کمپنیاں ہائیبرڈ نظام کے حق میں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عالمی وبا کے دوران پروفیشنل نیٹ ورکنگ سائٹ 'لنکڈ ان' میں گھر سے کام کرنے والی جابز کی مانگ 5 گنا بڑھی ہے۔
ادارہ جاتی نفسیات دان کیٹلین سووڈی نے وائس آف امریکہ کی ڈورا میکور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کچھ کمپنیاں گھر سے کام کی پیشکش کریں گی، تو باقیوں کو بھی ان کی پیروی کرنی ہی پڑے گی۔
ان کے بقول اگر کمپنیوں کو نئی صلاحیتوں کے حامل افراد کی ضرورت ہوگی، تو انہیں کچھ لچکدار رویہ اپنانا پڑے گا۔ رویے میں لچک کے علاوہ انہیں طریقہ کار میں بھی فرق کرنا پڑے گا۔ کون کیا کر رہا ہے، کس کا آفس آنا ضروری ہے، کس کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، کس کو ان چیزوں کی بالکل ضرورت نہیں، اور یہ بھی کہ کام کیسے ہو، اس پر بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں امریکی کمپنی جنرل موٹرز نے اعلان کیا ہے کہ دنیا بھر میں اس کے ایک 1 لاکھ 55 ہزار ملازمین خود فیصلہ کریں کہ وہ گھر سے کام کرنا چاہتے ہیں یا آفس واپس آنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے بس یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کس قسم کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک اور امریکی کمپنی جے پی مورگن نے ہائیبرڈ نظام لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یعنی مستقبل میں 100 ملازمین کے کمرے میں اسے شائد بس 60 ہی کی ضرورت رہے گی۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیبرڈ نظام بھی اپنے ساتھ نئے چیلنج لے کر آئے گا۔ عالمی وبا کے بعد سے امریکہ میں گھر سے کام کرنے والے افراد میں سے 55 فیصد کا کہنا ہے کہ ان سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ 39 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ وہ کام کے شدید بوجھ سے تھک گئے ہیں۔
امریکہ کی اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے ویکسر میڈیکل سینٹر میں نفسیاتی اور رویہ جاتی صحت کے شعبے کی چیف نفسیات دان کرسٹن کارپنٹر کا کہنا ہے کہ ہائیبرڈ نظام کے چلنے کے لیے اہم ہے کہ کمپنیاں اس کے لیے خاص طریقہ کار متعین کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ گھر سے کام کے دوران دفتری اوقات کے بعد بھی بہت سا کام کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس کام کے دباؤ کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ان کے خیال میں جو لوگ گھر سے کام کے ماڈل کی جانب جاتے ہیں، تو دفتری اور گھر کے اوقات میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہر وقت ہی کام کر رہے ہیں۔
اس لیے ان کے بقول اس کام کے دباؤ کو ذہن میں رکھنا، کہ کیسے دفتری کام لوگوں کے دوسرے معمولات کو متاثر کرتا ہے، بہت اہم ہے۔
ایک تحقیق یہ بھی ہے، کہ نوجوان ملازمین گھر سے کام کے دوران کام کے متعلق بہت زیادہ پرجوش نہیں ہوتے۔ اس بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں کہ جب کسی ادارے کے ملازمین کے چھوٹے چھوٹے حلقے بن جاتے ہیں، تو ان کے لیے نئے خیالات تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
کیٹلین سووڈی کے مطابق بعض ریسرچز میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب لوگ گھروں سے کام کرتے ہیں تو وہ بہت کم لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ایسے میں نئے خیالات تک ان کی رسائی محدود ہو جاتی ہے۔
کیٹلین کا کہنا تھا کہ ایسے میں لوگ اپنے محدود سے حلقے میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب کہ آفس جانے کی صورت میں ان کا بہت سے مختلف محکموں میں لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے، مختلف خیالات، زاویوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور ایسے میں ملازمین کی تخلیقی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور وہ نئے خیالات پیدا کر سکتے ہیں۔