صدر گڈلک جوناتھن سے ملاقات کے بعد برطانوی عہدیدار کا کہنا تھا کہ صدر نے یہ بات واضح کردی کہ بوکو حرام کے ساتھ ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے جس میں مغوی لڑکیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا ذکر ہو۔
افریقی امور کے لیے برطانوی وزیر مارک سائمنڈز نے بتایا ہے کہ نائیجیریا کی حکومت باغی گروہ بوکو حرام کی طرف سے مغوی طالبات کے بدلے عسکریت پسندوں کے قیدیوں کی رہائی پر راضی نہیں۔
صدر گڈلک جوناتھن سے ملاقات کے بعد مارک سائمنڈز کا کہنا تھا کہ ’’انہوں نے یہ بات واضح کردی کہ بوکو حرام کے ساتھ ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے جس میں مغوی لڑکیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا ذکر ہو۔‘‘
عسکریت پسند گروہ نے پیر کو ایک وڈیو جاری کی جس میں انہوں نے حکومت کو اپنے قیدیوں کی رہا پر 200 سے زائد طالبات کو چھوڑنے کی پیش کش کی تھی۔
منگل کو نائیجیریا کے خصوصی وزیر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائیٹرز کو کہا تھا کہ ’’مذاکرات کے دروازے ابھی تک کھلے ہیں‘‘۔
بوکو حرام کے جنگجو گزشتہ ماہ نائیجیریا کے جنوب مشرقی گاؤں چیبوک میں ایک اسکول میں زبردستی داخل ہوئے اور امتحان دینے والی 276 طالبات کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اغوا کی گئی طالبات میں سے بعض فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں جب کہ اب بھی 200 کے قریب لاپتا ہیں۔
طالبات کے اغواء کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک مہم کا آغاز ہوگیا جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانسں، اور اسرائیل کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان لڑکیوں کی تلاش کے لئے نائیجیریا کو مدد کی پیش کش کریں۔
سائمنڈز کا کہنا تھا کہ نائیجیریا نے برطانوی حکومت کی طرف سے مدد کی پیش کش قبول کر لی ہے جس میں فضا سے نگرانی کرنے والے طیارے بھیجنا بھی شامل ہے۔
اس سے پہلے امریکہ نے ایسے ہی طیارے اور فوج و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین بھجوانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو سیٹیلائٹ سے حاصل کردہ معلومات بھی فراہم کر چکا ہے۔
علاوہ ازیں فرانس نے بوکو حرام کے خلاف اقدامات کے لیے آئندہ ہفتے نائیجیریا اور اس کے ہمسایہ ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کے انعقاد کی پیشکش کی ہے جس میں کیمرون، چاڈ اور نائیجر کے رہنماؤں کے علاوہ برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ کے نمائندوں کی شرکت متوقع ہے۔
بوکو حرام تنظیم 2009 سے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر چکی ہے جب کہ براعظم افریقہ کی سب سے بڑی معیشت جنوب مشرقی نائیجریا میں عدم استحکام کی ذمہ داری بھی اس پر ہی عائد کی جاتی ہے۔
صدر گڈلک جوناتھن سے ملاقات کے بعد مارک سائمنڈز کا کہنا تھا کہ ’’انہوں نے یہ بات واضح کردی کہ بوکو حرام کے ساتھ ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے جس میں مغوی لڑکیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا ذکر ہو۔‘‘
عسکریت پسند گروہ نے پیر کو ایک وڈیو جاری کی جس میں انہوں نے حکومت کو اپنے قیدیوں کی رہا پر 200 سے زائد طالبات کو چھوڑنے کی پیش کش کی تھی۔
منگل کو نائیجیریا کے خصوصی وزیر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائیٹرز کو کہا تھا کہ ’’مذاکرات کے دروازے ابھی تک کھلے ہیں‘‘۔
بوکو حرام کے جنگجو گزشتہ ماہ نائیجیریا کے جنوب مشرقی گاؤں چیبوک میں ایک اسکول میں زبردستی داخل ہوئے اور امتحان دینے والی 276 طالبات کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اغوا کی گئی طالبات میں سے بعض فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں جب کہ اب بھی 200 کے قریب لاپتا ہیں۔
طالبات کے اغواء کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک مہم کا آغاز ہوگیا جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانسں، اور اسرائیل کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان لڑکیوں کی تلاش کے لئے نائیجیریا کو مدد کی پیش کش کریں۔
سائمنڈز کا کہنا تھا کہ نائیجیریا نے برطانوی حکومت کی طرف سے مدد کی پیش کش قبول کر لی ہے جس میں فضا سے نگرانی کرنے والے طیارے بھیجنا بھی شامل ہے۔
اس سے پہلے امریکہ نے ایسے ہی طیارے اور فوج و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین بھجوانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو سیٹیلائٹ سے حاصل کردہ معلومات بھی فراہم کر چکا ہے۔
علاوہ ازیں فرانس نے بوکو حرام کے خلاف اقدامات کے لیے آئندہ ہفتے نائیجیریا اور اس کے ہمسایہ ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کے انعقاد کی پیشکش کی ہے جس میں کیمرون، چاڈ اور نائیجر کے رہنماؤں کے علاوہ برطانیہ، یورپی یونین اور امریکہ کے نمائندوں کی شرکت متوقع ہے۔
بوکو حرام تنظیم 2009 سے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کر چکی ہے جب کہ براعظم افریقہ کی سب سے بڑی معیشت جنوب مشرقی نائیجریا میں عدم استحکام کی ذمہ داری بھی اس پر ہی عائد کی جاتی ہے۔