پاکستان کے چین سے ملحقہ علاقے گلگت بلتستان میں چلاس میں ہفتے کی شب شاہراہِ قراقرم پر مسافر بس پر فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 9 ہو گئی ہے جب کہ اس واقعے کے 16 زخمی دیامیر اور چلاس کے اسپتالوں زیرِ علاج ہیں۔
فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والے پاکستان کی فوج کے دو اہل کاروں اور سویلین افراد کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ان کی میتیں آبائی علاقوں کی جانب روانہ کر دی گئی ہیں۔
گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے واقعے کے بعد شاہراہ قراقرم کے مختلف علاقوں میں پھنسے مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت سے رابطہ کیا ہے۔
گلگت میں بس پر فائرنگ کے خلاف بطور احتجاج تمام تر تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں جب کہ اتوار کو عام ہڑتال کی اپیل کی گئی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کو ملانے والی شاہراہ قراقرم ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے۔
گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ گلبر خان نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض عناصر بیرونی دشمنوں کی ایما پر علاقے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہیں جس کی کبھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
گلگت بلتستان کے وزیرِ داخلہ نے اس واقعے میں بھارت کے جاسوس ادارے ’را‘ پر ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں بھارت پر الزام عائد کرتا رہا ہے البتہ نئی دہلی کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی ہے۔
وزیر داخلہ نے اتوار کو جاری کردہ بیان میں اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی سربراہی میں تحقیقات کے لیے ٹیم روانہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
SEE ALSO: گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی آخر وجہ کیا ہے؟گلگت بلتستان کے سینئر صحافی رجب قمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انتظامیہ نے ہفتے کی شب جاری کردہ بیان میں غذر سے راولپنڈی جانے والی ’کے ٹو ٹریولز‘ کی مسافر بس پر جنوبی پہاڑی سے نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ کی تصدیق کی جس کے نتیجے میں تین مسافر اسی وقت ہلاک ہو گئے تھے جب کہ 15 سے زائد زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
رجب قمر کے مطابق سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ متعدد گولیاں بس پر لگنے سے بس بے قابو ہو کر سامنے سے آنے والے مال بردار ٹرک سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ٹرک کا اگلا حصہ مکمل طور جل گیا تھا جب کہ ٹرک کا ڈرائیور جھلس کر ہلاک ہوا۔
ہلاک ہونے والوں میں دو سیکیورٹی اہل کاروں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اس واقعے کے بعد شاہراہ قراقرم پر آمد و رفت کا سلسلہ معطل ہے۔
رجب قمر کے مطابق درجنوں گاڑیوں میں سوار سینکڑوں مسافر مختلف مقامات پر پھنسےہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے دیامیر ڈویژن کے علاقے چلاس میں جہاں یہ واقعہ پیش آیا یہ خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقے کوہستان سے ملحق ہے۔
گلگت بلتستان حکومت نے پھنسے ہوئے لوگوں کو بحفاظت اپنے علاقوں تک پہنچانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کے معاون خصوصی ایمان شاہ نے اتوار کی صبح ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ زیادہ تر مسافر شاہراہ قراقرم پر کوہستان کے علاقے میں مختلف مقامات پر رکے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے وزیرِ داخلہ شمس لون نے اتوار کی صبح پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں کسی بھی طور پر بیرونی ہاتھ بالخصوص بھارت کے جاسوسی ادارے را کے ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کہا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کی دہشت گردی کے اس واقعے کی ہر زاویے سے تحقیقات کی جائے گی ۔ آئی جی پولیس دیامر روانہ ہوگئے ہیں۔
انہوں نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں دو فوجی جوان ہلاک جب کہ ایک زخمی ہوا ہے۔
ابھی تک کسی فرد یا گروپ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ کی مذمت
وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے دیامر میں مسافر بس پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے اور واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
گلبر خان کا کہنا تھا کہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی اور ان تک پہنچا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کے تمام اخراجات حکومت ادا کرے گی اور بہتر طبی سہولیات کو یقینی بنائے گی جس کے لیے متعلقہ محکموں کو ہدایات دے دی گئی ہیں۔