زینب قتل کیس کے ملزم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں: پنجاب حکومت

زینب کے والد اپنی مقتول بچی کی تصویر صحافیوں کو دکھا رہے ہیں (فائل فوٹو)

حکام کے مطابق جمعے کو طلب کیے جانے کے باوجود ڈاکٹر شاہد مسعود تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے دعووں کے ثبوت میں کوئی شواہد کمیٹی کو بھیجے۔

پنجاب کی صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو زینب قتل کیس کے ملزم عمران علی کے کسی بینک اکاؤنٹ کا سراغ نہیں ملا ہے اس بارے میں ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر کا دعویٰ تحقیقات کا رخ موڑنے کی کوشش تھی۔

صوبائی حکومت کے ترجمان ملک احمد اعوان نے جمعے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ملزم عمران کے بینک اکاؤنٹ سے متعلق دعوے اور خبریں جھوٹی اور من گھڑت تھیں۔

انہوں نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے الزام لگانے والے ٹی وی شو کے میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود کو دو بار طلب کیا لیکن وہ نہ تو ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اور نہ اپنے دعوے کے حق میں کوئی ثبوت دیا۔

ترجمان نے کہا کہ اس معاملے میں اینکر کی دروغ گوئی کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔

ملزم عمران علی کے مبینہ بینک اکاؤنٹس کا دعویٰ ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے بدھ کی شب ٹی وی پر اپنے پروگرام میں کیا تھا جس کا سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیا تھا۔

جمعرات کو اس نوٹس کی سماعت کے دوران ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالتِ عظمیٰ میں دعویٰ کیا تھا کہ ملزم عمران علی بچوں کی فحش ویڈیو بنا کر فروخت کرنے والی ایک بین الاقوامی مافیا کا رکن ہے جسے ان کے بقول ایک وفاقی وزیر اور ان کی ساتھی ایک اعلیٰ شخصیت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ملزم کے مختلف بینکوں میں 37 غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس موجود ہیں جن پر عدالت نے زینب قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کو ٹی وی اینکر کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

ملزم عمران کے متعدد بینک اکاؤنٹس کی خبریں سامنے پر وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی تھی اور اسے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے زینب قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی پہلے سے موجود جے آئی ٹی میں جمعرات کو دو ارکان کا اضافہ کرکے نئی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جنہیں ملزم کے مبینہ بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنا تھیں۔

نئی جے آئی ٹی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف آئی اے کی نمائندوں کو شامل کیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت کے ترجمان کی پریس کانفرنس سے قبل ایف آئی اے پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ان کی ٹیم نے قصور جا کر ملزم عمران علی کے مبینہ بینک اکاؤنٹس کے دعووں کی تحقیقات کی ہیں جن سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم کا کسی کمرشل بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں۔

ایف آئی کے ایک افسر نے وی او اے کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے قصور کے تمام بینکوں میں ملزم کے اکاؤنٹس کی چھان بین مکمل کرلی ہے جس میں ملزم کا قصور کے 12 بینکوں میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ملا۔

دریں اثنا لاہور پولیس نے زینب قتل کیس کے ملزم عمران کا ویڈیو بیان جاری کرنے پر سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کے دو اہلکاروں کو معطل کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

حکام نے دونوں اہلکاروں کے موبائل فونز بھی ضبط کرلیے ہیں۔

پولیس نے زینب قتل کیس کے ملزم کو سی آئی اے کے ماڈل ٹاؤن اسٹیشن میں رکھا ہوا ہے جہاں اس کے دورانِ حراست پولیس کو دیے جانے والے بیان کی ایک مختصر ویڈیو جمعرات کو مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی تھی۔