پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے قصور میں بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے الزام میں گرفتار عمران علی کے مبینہ بینک اکاؤنٹس سے متعلق الزامات کی تحقیقات کا الگ الگ حکم دے دیا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران نجی ٹی وی کے ایک میزبان نے دعویٰ کیا کہ ملزم عمران علی کا تعلق بچوں کی فحش ویڈیو بنا کر فروخت کرنے والی بین الاقوامی مافیا سے ہے اور اس کے 37 غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس بھی ہیں۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں معمول کے مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب قتل ازخود نوٹس کیس میں ایک اور نوٹس لیا اور صبح نو بجے رجسٹرار دفتر سے اس سلسلے میں کاز لسٹ جاری کی گئی۔
نئی کاز لسٹ میں دن ساڑھے گیارہ بجے نجی ٹی وی چینل کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔
ساڑھے گیارہ بجے از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو کمرۂ عدالت میں ڈاکٹر شاہد مسعود اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے گزشتہ رات کیے گئے ان کے ٹی وی پروگرام کے بارے میں استفسار کیا کہ جو الزامات اس پروگرام میں انہوں نے لگائے ہیں کیا وہ ان پر اب بھی قائم ہیں؟
اس پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ وہ اپنی تمام باتوں پر قائم ہیں اور عدالت کو مزید دستیاب تفصیلات بھی فراہم کریں گے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے بدھ کی شب اپنے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ قصور میں زینب اور دیگر بچیوں کے قتل کے ملزم عمران علی کے بیرون ممالک پورنو گرافی مافیا کے ساتھ تعلقات ہیں اور اس کے 37 غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس بھی موجود ہیں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کام میں عمران علی کو ایک وفاقی وزیر اور ایک اہم سیاسی شخصیت کی پشت پناہی حاصل ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کے بیان کے بعد سپریم کورٹ نے ملزم عمران علی کی سکیورٹی یقینی بنانے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ پولیس تحویل میں آئی جی پنجاب ملزم کی سکیورٹی کے ذمہ دار ہونگے اور اگر ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر جیل گیا تو اس کی سکیورٹی کی ذمہ داری آئی جی جیل خانہ جات کے پاس ہوگی۔
عدالت نے حکم دیا کہ ملزم کو نقصان پہنچا تو ذمہ داران متعلقہ حکام ہوں گے اور کسی نقصان کی صورت میں متعلقہ آئی جی کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے سماعت کے دوران ملزم عمران علی کے مبینہ فارن کرنسی اکاؤنٹس کی فہرست بھی عدالت میں پیش کی۔ جب کہ عدالت کے استفسار پر ملزم کی مبینہ پشت پناہی کرنے والی سیاسی شخصیات کے نام بھی ایک پرچے پر لکھ کر عدالت کو دے دیےاور کہا کہ فی الحال ان شخصیات کے نام پبلک نہیں کیے جاسکتے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نام ہمارے پاس محفوظ رہیں گے۔
عدالت نے شاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ زینب قتل کیس کی تفتیشی ٹیم ان الزامات کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلٰی پنجاب نے بھی شاہد مسعود کے پروگرام کا نوٹس لیا ہے اور ایک نئی تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صبح نو بجے عدالت نے نوٹس لیا پھر وزیراعلٰی کو بھی یاد آگیا۔ سچ جاننے کے لیے معاملے کی تہہ تک جائیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
سات سالہ زینب کو رواں ماہ قصور میں زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد پورے ملک میں اس واقعے پر احتجاج ہوا تھا۔
اس کیس میں پولیس نے رواں ہفتے ایک ملزم عمران علی کو گرفتار کیا تھا جس کا ڈی این اے پولیس کے مطابق مقتولہ زینب کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کرگیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملزم عمران نے زینب کے علاوہ مزید نو بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔