پاکستان کی سیاست میں اس وقت تحریک عدم اعتماد کا شور بہت سنائی دے رہا ہے۔جو منگل کے روز قومی اسمبلی میں جمع بھی کرا دی گئی ہے۔ جس کے ذریعےمتحدہ حزب اختلاف وزیر اعظم عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ جبکہ حکومت اپنا دفاع کر رہی ہے۔
جب بات تحریک عدم اعتماد کی ہوتی ہے تو اس حوالے سے چند باتیں یا اصطلاحات بڑے تواتر سے استعمال ہوتی ہیں، مثلاً نمبر گیم، فلور کراسنگ، اوپن بیلٹ اور سیکرٹ بیلٹ، اور آئینی تقاضے وغیرہ۔ آج ہم اسی بارے میں گفتگو کریں گے کہ تحریک عدم اعتماد کیا ہے۔ اس کے لیے آئینی تقاضے کیا ہیں اور ان اصطلاحات کا مطلب کیا ہے جو اس سلسلے میں استعمال کی جاتی ہیں۔
پارلیمانی جمہوریتوں میں، جیسی پاکستان، بھارت یا برطانیہ وغیرہ میں ہے۔ جہاں پارٹی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں۔ اور جو پارٹی ایوان زیریں میں جسے پاکستان میں قومی اسمبلی کہا جاتا ہے، ارکان کی اکثریت حاصل کرلے، وہ اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہے۔ جو وزیر اعظم کہلاتا یا کہلاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ پارٹی یا پارٹیاں جن کے ارکان کی مجموعی تعداد کم ہوتی ہے، حزب اختلاف کہلاتی ہیں۔ وہ بھی اپنا ایک پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہیں جو قائد حزب ا اختلاف کہلاتا یا کہلاتی ہے۔
اگر حزب اختلاف حکومت کی کار کردگی سے مطمئن نہ ہو اور حکومت گرانا چاہے تو اس کا آئینی طریقہ یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔ ان دنوں پاکستان میں یہی ہو رہا ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں متحد ہوکر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرانےکی کوشش کررہی ہیں جس کے لیے آئین میں باقاعدہ ایک طریقہ کار درج ہے۔ جس کے مطابق وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اور یہاں پر نمبرز گیم کی اصطلاح سامنے آ تی ہے۔ یعنی فریقین یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود ہے۔
SEE ALSO: عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد سوچ سمجھ کر لائے ہیں: حزبِ اختلافاس وقت پاکستان میں قومی اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد 342 ہےجس کی سادہ اکثریت 172 ارکان کی تعداد بنتی ہے۔
جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا کہ یہ کارروائی آئین کی شقوں کے تحت ہوتی ہے۔ وہ کونسی شقیں ہیں؟ آئینی امور کے ایک ماہر ممتاز قانون داں قاضی مبین کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی آئین کے آرٹیکل95 اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس 2007 کے رول 37 کے تحت ہو گی۔ تحریک پر تین دن سے پہلے اور سات دن کے بعد ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔ یعنی تین سے سات دن کے عرصے میں ووٹنگ ہو گی اور اس ووٹنگ سے پہلے اور بعد میں ایک طویل آئینی طریقہ کار اپنانا ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ رولز آف پروسیجر کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن ہوتی ہے۔ رولز کے تحت سیکریٹ ووٹنگ نہیں ہو سکتی، کیونکہ تحریک اعتماد کے لیے “قرارداد” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور رولز آف پروسیجر کے تحت جو ضابطے بنائے گئے ہیں، قومی اسمبلی میں کسی بھی قرارداد پر ووٹنگ اوپن ہوتی ہے۔
فلور کراسنگ
عام طور سے فلور کراسنگ کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ اگر ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والا قومی اسمبلی کا کوئی رکن اپنی پارٹی سے مستعفی ہو کر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو جائے۔ تو وہ نا اہل ہو جائے گا یعنی اسمبلی کی اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ قاضی مبین کہتے ہیں کہ آئین کی دفعات 62 اور 63 اور ان کی بعض ذیلی دفعات کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی وزیر اعظم یا کسی صوبے میں وزیر اعلٰی کے انتخاب یا ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا تحریک اعتماد اور آئینی ترامیم کے سلسلے میں اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دے، ووٹنگ میں حصہ نہ لے یا ووٹنگ دوران ایوان سے غیر حاضر رہے تب بھی وہ نا اہل ہو جائے گا اور اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔
SEE ALSO: 'اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دار تو ہے مگر اشارہ نہیں ملا کہ وہ حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے'لیکن اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ دینے کی پاداش میں اس کی رکنیت تو ختم ہو جائے گی، لیکن جو ووٹ اس نے دیا ہے، اسے درست مانا جائے گا اور اسے شمار کیا جائے گا۔
قاضی مبین کہتے ہیں کہ ان صورتوں کے باوجود کوئی رکن اس وقت تک خود بخود نا اہل نہیں ہوتا جب تک کہ اس پارٹی کا سربراہ اس کے لیے کارروائی کا آغاز نہ کرے۔ اور پھر ایک طویل طریقہ کار سے گزر کر اس کے نا اہل ہونے کی نوبت آتی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا اگر موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھ کر یہ فرض کرلیا جائے کہ اپوزیشن کے دعوے کے مطابق وہ سرکاری پارٹی کے بعض اراکین کی مدد سے وزیر اعظم کے خلاف جنہیں ایوان میں سادہ اکثریت حاصل ہے۔ تحریک عدم اعتماد منظور بھی کرا لیتی ہے تو وہ ارکان نا اہل ہو جائیں گے، جنہوں نےاپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہےاور اپوزیشن کی اکثریت پھر اقلیت میں بدل جائے گی تو وہ اپنا نیا وزیر اعظم کیسے منتخب کر اسکے گی۔
قاضی مبین کا کہنا تھا اس صورت حال میں عام طور سےحکومتی پارٹی جسے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہوتا ہے، وہ یہ طریقہ اختیار کرتی ہے کہ اپنے ارکان کو ایوان سے باہر رکھتی ہے اور اندر نہیں آنے دیتی کہ نہ اندر آئیں گے اور نہ فلور کراس کریں گے نہ مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری ہوسکے گی اور نتیجتاً تحریک ناکام ہو جائے گی۔ اس نوعیت کے ہتھکنڈے دونوں جانب سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریکوں کی تاریخ
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان ادوار کو چھوڑ کر جب ملک میں فوجی آمریتیں رہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے ادوار میں اب تک کسی سربراہ حکومت کو اس آئینی طریقے کے ذریعے اقتدار سے محروم نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض وزرا آعظم کو دوسرے طریقوں سے اقتدار سے محروم کیا گیا۔ پاکستان کے صرف دو وزرا آعظم کو عدم اعتماد کی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن دونوں نے اپنے خلاف اس تحریک کو ناکام بنا دیا۔
یکم نومبر1989 کو اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ جو 12 ووٹوں کی اکثریت سے ناکام ہو گئی۔ اسی طرح 2006 میں مشرف دور کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہو گئی تھی۔
اور اب پاکستان کی تاریخ میں تیسرا موقع ہے کہ کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہورہی ہے۔ دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے۔