امریکہ میں حزب مخالف کے ریپبلکنز سمیت متعدد تجزیہ کاروں نےاس بات کو نوٹ کیا ہےکہ صدر بائیڈن نے اپنے دوسرے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں افغانستان کا ذکر نہیں کیا۔
ریپبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا،’’ صدر بائیڈن بظاہر افغانستان کو بھول گئے ہیں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا نے ایسا نہیں کیا۔ ہمارے اتحادی اب بھی اس کی تباہ کن انخلاء کے صدمے سے دوچار ہیں اور دہشت گرد دشمنوں کو حوصلہ ملا ہے۔‘‘
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’افغانستان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ‘‘۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس نے اس موضوع پر افغانستان کے لیے سابق امریکی سفیر جیمز کننگھم کا انٹرویو کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ آف دی یونین میں افغانستان کا تذکرہ نہ کیا جانا امریکی پالیسی کا مظہر نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ اور امریکی کانگریس میں افغانستان اور افغان عوام کے لیے اب بھی وسیع پیمانے پرحمایت موجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ’’ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ اور بدقسمتی سے اب یہ خطرہ ہے کہ ایوان نمائندگان میں ایک نئی ریپبلکن چھوٹی اکثریت کی وجہ سے افغانستان ایک سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے، کیونکہ ریپبلکن سیاسی مقاصد کے لیے انخلاء کے دوران بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم افغانستان میں سابق امریکی سفیر جیمز کننگھم نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز امریکی پالیسی کو تبدیل نہیں کرے گی۔
امریکی اور علاقائی سفارتی کوششوں کے حوالے سے کننگھم کہتے ہیں کہ ہم میں سے وہ لوگ جو افغانستان کی مدد کرناچاہتے ہیں اور افغانستان کے بہتر مستقبل کو فروغ دینے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، وہ علاقائی استحکام کو بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو افغانستان کے پڑوسیوں کے لیے مسئلہ ہے، ہم سب ایک ہی طرح کے مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان کے لیے سابق سفیر کا کہنا ہےکہ ابھی تک کسی بھی قسم کا ایسا ایجنڈا طے کرنے کی سفارتی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں جس پر طالبان کان دھرتے۔
انہوں نے کہا،’’ "پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران ہم نے بار بار جامع حکومت، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی بحالی اور تعلیم کی بحالی اور وہ تمام چیزیں جو (افغانستان کے)باہر کےتمام لوگ اور زیادہ تر افغان چاہتے ہیں ، مختلف فارمولیشنز میں پیش کی ہیں۔لیکن طالبان نے کان بند کر رکھے ہیں اوروہ وہی کرتے رہے ہیں جو انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
صدر بائیڈن نے اپنا دوسرا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب، منگل سات فروری کو کیا تھا۔امریکہ میں صدر اپنے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی پیش کرتے ہیں اور آئندہ کی حکمت عملی کا احاطہ کرتے ہیں۔
صدر بائیڈ ن نے اپنے دوسرے اسٹیٹ آف یونین خطاب میں زیادہ توجہ ملک کے اندرونی مسائل پر مرکوز رکھی۔ انہوں نے ملک کے اندر معاشی استحکام کے لیے سیاسی تقسیم کے خاتمے اور قومی اتفاق رائے کے لیے ری پبلکن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ملک کے اندر روزگار کے مواقع کے فروغ، ملک کے اندر صنعتی و تعمیراتی مواد کی پیداوار بڑھانے کا بھی اعادہ کیا۔ یوکرین جنگ اور چین کے ساتھ مسابقت نہ کہ مخالفت کے عزم کا بھی ان کے خطاب میں شامل موضوعات کا حصہ تھے۔