صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر صغیر احمد کے بقول انسدادِ پولیو مہم کی معطلی کا مقصد مہم سے منسلک 55 ہزار رضاکاروں کی جانوں کا تحفظ ہے
صوبہ سندھ کے وزیرِ صحت نے کہا ہے کہ انسدادِ پولیو مہم کے رضاکاروں پر حالیہ حملوں کے بعد صوبے بھر میں اس وقت تک مہم نہیں چلائی جائے گی جب تک سیکیورٹی ادارے کلیئرنس نہیں دے دیتے۔
یاد رہے کہ 17 دسمبر کو ملک بھر میں شروع ہونے والی انسدادِ پولیو مہم کے پہلے اور دوسرے روز صوبائی دارالحکومت کراچی میں مہم سے منسلک پانچ رضاکاروں کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد صوبائی حکومت نے مہم معطل کردی تھی۔
بدھ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر صغیر احمد کا کہنا تھا کہ حالیہ حملوں میں پانچ رضاکاروں کی ہلاکت کے بعد 17 دسمبر کو شروع ہونےو الی سالِ رواں کی آخری انسدادِ پولیو مہم کو اس لیے معطل کردیا گیا ہے کیونکہ حکومت مہم سے منسلک 55 ہزار پولیو رضاکاروں کی جانوں کو دائو پر نہیں لگانا چاہتی۔
ڈاکٹر صغیر نے کہا کہ آئندہ سال جنوری میں شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم سیکیورٹی اداروں کی جانب سے رضاکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی تک شروع نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر صغیر احمد نے بتایا کہ انسدادِ پولیو مہم کی معطلی کے نتیجے میں سندھ بھر کے 44لاکھ سے زائد بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی کراچی کے گڈاپ ٹائون میں پولیو ٹیموں پر حملے کیے گئے تھے اور یکم جولائی کو کیے جانے والے ایک حملے میں ایک رضاکار ہلاک ہوا تھا۔
لیکن ان کے بقول اس بار جس طرح گزشتہ دوروز میں کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیو رضاکاروں پر حملے کیے گئے ہیں، وہ کسی منظم سازش کا حصہ لگتے ہیں جس کا مقصد، ان کے بقول، دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔
یاد رہے کہ ملک بھر میں چلنے والی انسدادِ پولیو مہم کے پہلے روز 17 دسمبر کو کراچی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایک رضاکار کو قتل کردیا تھا۔ دوسرے روز کراچی کے دو مختلف علاقوں میں کیے جانے والے حملوں میں مہم سے وابستہ مزید چار خواتین رضاکارہلاک ہوگئی تھیں جب کہ پشاور میں بھی ایک خاتون رضاکار کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا تھا۔
مہم کے آخری روز بدھ کو بھی ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں انسدادِ پولیو مہم کی ٹیموں پر فائرنگ کی گئی جن میں مہم سے منلکھ ایک خاتون افسر اور ان کا ڈرائیور ہلاک جب کہ ایک رضاکار شدید زخمی ہوگیا۔
دریں اثنا بدھ کو کراچی سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں انسدادِ پولیو مہم میں حصہ لینے والے طبی و غیر طبی عملے کی انجمنوں کی جانب سے اپنے ساتھیوں پر حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
ڈاکٹروں کی کئی صوبائی اور قومی تنظیموں نے بھی حالیہ حملوں کی سخت مذمت کی ہے جب کہ بین الاقوامی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے بھی اپنے ایک مشترکہ بیان میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پولیو مہم سے منسلک اپنے عملے کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ 17 دسمبر کو ملک بھر میں شروع ہونے والی انسدادِ پولیو مہم کے پہلے اور دوسرے روز صوبائی دارالحکومت کراچی میں مہم سے منسلک پانچ رضاکاروں کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد صوبائی حکومت نے مہم معطل کردی تھی۔
بدھ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر صغیر احمد کا کہنا تھا کہ حالیہ حملوں میں پانچ رضاکاروں کی ہلاکت کے بعد 17 دسمبر کو شروع ہونےو الی سالِ رواں کی آخری انسدادِ پولیو مہم کو اس لیے معطل کردیا گیا ہے کیونکہ حکومت مہم سے منسلک 55 ہزار پولیو رضاکاروں کی جانوں کو دائو پر نہیں لگانا چاہتی۔
ڈاکٹر صغیر نے کہا کہ آئندہ سال جنوری میں شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم سیکیورٹی اداروں کی جانب سے رضاکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی تک شروع نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر صغیر احمد نے بتایا کہ انسدادِ پولیو مہم کی معطلی کے نتیجے میں سندھ بھر کے 44لاکھ سے زائد بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہ جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی کراچی کے گڈاپ ٹائون میں پولیو ٹیموں پر حملے کیے گئے تھے اور یکم جولائی کو کیے جانے والے ایک حملے میں ایک رضاکار ہلاک ہوا تھا۔
لیکن ان کے بقول اس بار جس طرح گزشتہ دوروز میں کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیو رضاکاروں پر حملے کیے گئے ہیں، وہ کسی منظم سازش کا حصہ لگتے ہیں جس کا مقصد، ان کے بقول، دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔
یاد رہے کہ ملک بھر میں چلنے والی انسدادِ پولیو مہم کے پہلے روز 17 دسمبر کو کراچی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایک رضاکار کو قتل کردیا تھا۔ دوسرے روز کراچی کے دو مختلف علاقوں میں کیے جانے والے حملوں میں مہم سے وابستہ مزید چار خواتین رضاکارہلاک ہوگئی تھیں جب کہ پشاور میں بھی ایک خاتون رضاکار کو ہدف بنا کر قتل کردیا گیا تھا۔
مہم کے آخری روز بدھ کو بھی ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں انسدادِ پولیو مہم کی ٹیموں پر فائرنگ کی گئی جن میں مہم سے منلکھ ایک خاتون افسر اور ان کا ڈرائیور ہلاک جب کہ ایک رضاکار شدید زخمی ہوگیا۔
دریں اثنا بدھ کو کراچی سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں انسدادِ پولیو مہم میں حصہ لینے والے طبی و غیر طبی عملے کی انجمنوں کی جانب سے اپنے ساتھیوں پر حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
ڈاکٹروں کی کئی صوبائی اور قومی تنظیموں نے بھی حالیہ حملوں کی سخت مذمت کی ہے جب کہ بین الاقوامی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے بھی اپنے ایک مشترکہ بیان میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پولیو مہم سے منسلک اپنے عملے کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔