اس وقت نیو یارک میں غیر قانونی طور پر آئے ہوئے ہزاروں پناہ گزینوں کو سخت سردی میں مختلف ہوٹلوں اور عمارتوں میں قائم ایمر جنسی شیلٹرز یا ہنگامی پناہ گاہوں سے کھلے آسمان تلے بنائے شیلٹرز یا خیمہ بستیوں میں منتقل کرنے کا بندو بست کیا جارہا ہے جب کہ کرسمس کے تہوار کا موسم شروع ہو چکا ہے۔
ان پناہ گزینوں کو جو قانونی دستاویزات کے بغیر جنوبی سرحد سے امریکہ داخل ہوئے ہیں اور عارضی حراست میں رکھے جانے کے بعد امریکہ میں عارضی رہائش کے پروگرام کے تحت رہنے کے لیے اپنے کاغذات کی تکمیل کے انتظار میں ہیں شیلٹر اینڈ سروس پروگرا م کے تحت کچھ عرصے کے لیے ہنگامی شیلٹرز میں رکھاجاتا ہے ۔
نیو یارک میں پناہ کے حق کا عشروں پرانا قانون
امریکہ کی مختلف ریاستوں میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں تارکین وطن کو پناہ دینے کے لئے مختلف نظام موجود ہیں ۔ دوسرے بہت سے بڑے شہروں کے برعکس نیو یارک میں پناہ کے حق کا عشروں پرانا قانون موجود ہے جس کے تحت جو کوئی بھی پناہ مانگے اسے پناہ فراہم کرنا شہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت نیو یارک میں جنوبی سرحد سے قانونی دستاویزات کے بغیر آنے والے پناہ کے ہزاروں متلاشیوں کو پناہ اور دوسری سہولیات پہنچانے کا ایک مضبوط ایمر جنسی شیلٹر سسٹم کام کر رہاہے ۔
اس سسٹم کے تحت ان تارکین وطن کے لیے جو بغیر قانونی دستاویزات کے امریکہ میں پناہ کی تلاش میں داخل ہوتے ہیں انہیں کچھ عرصہ حراست میں رکھ کر ضابطے کی ابتدائی کارروائی کی جاتی ہے ۔
اسکے بعد انہیں ان عمارتوں اورہوٹلوں کے کمروں میں کچھ عرصے تک رہنے کے لیے منتقل کر دیا جاتا ہے جنہیں ہنگامی شیلٹرز میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔ ایسے پناہ گزینوں کے لئے مختلف مقامات پر خیمہ بستیاں بھی بنائی جاتی ہیں ۔
نیو یارک کےمئیر ایرک ایڈمز کہتے ہیں کہ ان کا شہر تارک وطن خاندانوں کے لئے تقریباً ہر ریاست سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ نیو یارک میں پناہ کے متلاشیوں کے لیے پناہ گاہیں قائم کرنے اور ہوٹلوں کے کمروں کی ادائیگی، کھانا خریدنے اور انکو درپیش بیوروکریٹک رکاوٹیں دور کرنے میں معاونت فرہم کرنے کےلیے اربوں ڈالر خرچ کرنے کا بندو بست کیا جارہا ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے سے نمٹنا ان کے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ انہوں نے بار بار انتباہ کیا ہے کہ شہر کے وسائل بہت کم ہو گئے ہیں ۔ 67 ہزار دو سو سے زیادہ تارکین وطن ابھی تک اس کی زیر نگرانی ہیں اور ہر ہفتے مزید وہاں پہنچ رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایمر جنسی شیلٹرز میں قیام کی مدت
نیو یارک میں ان بے گھر تارکین وطن کے خاندانوں کو کسی شہری ایمر جنسی شیلٹر میں 60 دن تک قیام کی اجازت دی جاتی ہے ۔ جب کہ تنہا بالغ تارکین وطن کو ان ہنگامی شیلٹرز میں صرف 30 دن تک رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اس قیا م کے دوران انہیں خوراک ،بچوں کی تعلیم اور دوسری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس عرصے میں اپنے روزگار تلاش کر لیں۔
مقررہ مدت کے بعد انہیں وہاں سے کسی اور شیلٹر میں منتقل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے یا اسی شیلٹرمیں اپنا قیام بڑھانے کے لیے دوبارہ درخواست دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ انہیں اس بارے میں کوئی ضمانت نہیں دی جاتی کہ خاندان ایک ہی ہوٹل میں یا ایک ہی شہر میں رہیں گے۔
SEE ALSO: امریکہ میں70 ہزار نئے افغان پناہ گزینوں کی عارضی رہائشی حیثیت خطرے میںدوسری ریاستوں کے ایمر جنسی شیلٹرز
شکاگو میں قائم ہنگامی پناہ گاہوں میں رہنے کے لیےگزشتہ ماہ پناہ کی حد 60 دن کر دی گئی تھی اور جنوری میں ان کی وہاں سے کسی دوسری جگہ یا کسی دوسرے شیلٹر میں منتقلی شروع ہوگئی تھی۔
میساچوسٹس کی گورنر ماورا ہیلے نے جو ایک ڈیمو کریٹ ہیں، ایمر جنسی شیلٹرز میں تارکین وطن خاندانوں کی تعداد کی حد ساڑھے سات ہزار کر دی تھی۔
ریاست ڈینور نے ان پناہ گاہوں میں قیام کے لیے 37 دن مقرر کیے ہیں لیکن اس ماہ سردی شروع ہونے کی وجہ سے اس نے اپنی پالیسی میں کچھ نرمی کی ہے ۔ تنہا بالغ افراد صرف 14 دن تک ان ہنگامی پناہ گاہوں میں رہ سکتے ہیں۔
نیو یارک کے ہنگامی شیلٹرز میں پناہ لینے والے تارکین وطن کے قیام کی مقررہ مدت کرسمس کے چند دن بعد ختم ہو رہی تھی لیکن مئیر کے دفتر نے انہیں جنوری کے اوائل تک وہاں رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ اب تک کوئی ساڑھے تین ہزار خاندانوں کو ہنگامی شیلٹر چھوڑنے کے نوٹس دیے جا چکے ہیں۔
نیو یارک میں ری ٹکٹنگ سنٹر
نیو یارک میں جن تارکین وطن کو ان شیلٹرز سے نکال دیا جاتا ہے اوروہ وہاں مزید رہنا چاہتے ہیں تو انہیں شہر کے ایک ری ٹکٹنگ سنٹر میں جانے کےلیے کہاجاتاہے جو مین ہیٹن کے مشرق میں ایک سابق کیتھولک اسکول میں اکتوبر کے آخر میں کھولا گیا تھا۔
درجنوں مرد اور خواتین، جن میں سےبہت سوں کے ساتھ ان کا سامان اور دوسری چیزیں ہوتی ہیں، ہر صبح سخت سردی میں اس مرکز کےسامنے قطار میں کھڑے ہوجاتے ہیں جہاں انہیں اپنے قیام کوبڑھانےکے لیے درخواست جمع کرانی ہوتی ہے۔
انہیں دنیا میں کسی بھی ملک میں جانے کےلیے یک طرفہ ٹکٹ کی پیش کش بھی کی جاتی ہے جسے بیشتر لوگ مسترد کر دیتے ہیں۔ کچھ مزیدتیس دن کا قیام حاصل کر لیتے ہیں لیکن بہت سے دوسرے کہتے ہیں کہ وہ خالی ہاتھ واپس آتے ہیں اور اگلے روز پھر اپنی قسمت آزمانے قطار میں کھڑے ہوجاتےہیں۔
وینزویلا کی ایک 22 سال تارک وطن خاتون باربرا کووموٹو نے جو مسلسل دو سرے دن اپنے قیام میں اضافے کی درخواست جمع کرانے کے لیے لائن میں کھڑی تھیں ، کہا انہیں ڈر ہے کہ سڑک پر سوتے ہوئے وہ کہیں مر ہی نہ جائیں۔
نیو یارک کے مئیر ایڈمز کی ترجمان کائلا ممیلک نے زور دے کر کہا کہ انتظامیہ کا ارادہ ہے کہ خاندانوں کو سڑکوں پر رات بسر کرنےسے بچایا جا سکے اور ان کےلیے مزید 60 دن قیام کا بندو بست کیا جارہا ہے ۔
تارکین وطن کے علمبردار
تاہم تارکین وطن کے علمبردار کہتے ہیں کہ ان کمزور خاندانوں کو آخر کار سال کے سر د ترین مہینوں میں وہاں سے نکال دیا جائے گا اور ان کے بچوں کی اسکولنگ متاثر ہو گی جنہوں نےحال ہی میں اپنی کلاسز شروع کی ہیں۔
ایکواڈور سے تین ماہ قبل امریکہ پہنچنے والی ایک خاتون، اوبندو نے کہا کہ ،ہم ایکو اڈو ر کے لوگ سست نہیں ہیں ہم اچھے کارکن ہیں ۔ لیکن ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ او ر وقت دیا جائے کیوں کہ دو ماہ کا عرصہ روزگار تلاش کرنے اور ایک نئی زندگی شروع کرنےکےلیےکافی نہیں ہوتا۔
وینزویلا کی آٹھ ماہ کی حاملہ تارک وطن 22 سالہخاتون اینا واسکوئز کے لیے صورتحال اور بھی ہنگامی نوعیت کی ہے۔ ان کے بچے کی پیدائش دسمبر کے آخر میں ہو گی لیکن انہیں نیو یارک کے ایمر جنسی شیلٹر کو آٹھ جنوری کو چھوڑنا ہو گا ۔
انہوں نے اس ماہ ایک سرد صبح ہوٹل سے باہر کھڑے ہو کر ہسپانوی زبان میں اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، ہمارے پاس نجات کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ صورتحال بہت دشوار ہے اور بچے کے ساتھ تو یہ اور بھی دشوار ہو گی ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔