فلسطینی عسکری تنظیم حماس کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے لیے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ جنگ کہاں تھمے گی اس کا اسرائیل کو بھی علم نہیں۔
حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل نے آپریشن 'سورڈ ز آف آئرن' یعنی آپریشن آہنی تلوار وں کا آغاز کیا تھا جس کے دوران غزہ پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔
اس جنگ میں اب تک دونوں جانب لگ بھگ پانچ ہزار اموات ہو چکی ہیں۔ عالمی سطح پر جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی ناکام رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے خطے کے سیکیورٹی ذرائع سے متعلق بتایا ہے کہ اسرائیل کی حکمتِ عملی غزہ پر ہزاروں ہم برسا کر ہر چیز تباہ کردینے کی ہے لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ ان کے پاس لڑائی سے نکلنے کی کوئی حکمتِ عملی نہیں ہے۔
اسرائیل کی غزہ کی جانب پیش قدمی ابھی ہونا باقی ہے لیکن غزہ کی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ لڑائی میں 3500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔
حماس کی جانب سے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملوں میں 1400 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں غیر ملکی باشندے بھی شامل ہیں۔
امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت سے آگاہ خطے کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی ابتدائی حکمتِ عملی غزہ کے انفرااسٹرکچرکو تباہ کرنا ہے چاہے اس میں شہری جانی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ اسرائیل فلسطینیوں کو مصر سے ملحقہ رفع بارڈر کی جانب منتقل کرناچاہتا ہے۔
SEE ALSO: عرب ممالک فلسطینی پناہ گزینوں کو لینے کے لیے کیوں تیار نہیں؟اسرائیلی حکام کا بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے کہ جنگ کے بعد کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے۔عرب حکام بھی ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے پاس غزہ سے متعلق مستقبل کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔
رائٹرز نے واشنگٹن ڈی سی میں اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے کچھ معاونین کو تشویش ہے کہ اگرچہ اسرائیل حماس کو دیرپا نقصان پہنچانے کے لیے ایک مؤثر منصوبہ تیار کر سکتا ہے لیکن اس نے ابھی تک جنگ سے باہر نکلنے کی حکمتِ عملی نہیں بنائی۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے حالیہ دورۂ اسرائیل کے دوران جنگ کے بعد کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو دورۂ اسرائیل کے دوران کہا تھا کہ حماس کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ نے بھی نائن الیون حملوں کے بعد کئی غلطیاں کی تھیں۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی بڑی تعداد کا تعلق حماس سے نہیں ہے اور حماس فلسطینی عوام کی نمائندگی نہیں کرتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی تھنک ٹینک ’کارنیگی انڈومیٹ فور انٹرنیشنل پیس‘ سے وابستہ ماہر ایرون ڈیوڈ ملر کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کے دورۂ اسرائیل نے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو غزہ پر کسی بھی قسم کی چڑھائی سے قبل طویل المدتی منصوبے کے بارے میں سوچنے کا موقع دیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ حماس کو ختم کر دیں گے لیکن یہ کس طرح ہو گا؟ اس بارے میں اسرائیل غیر واضح ہے۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے ڈائریکٹر نے منگل کو کہا تھا کہ وہ یقینی طور پر اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ اس معاملے کا اختتام کہاں ہو گا لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ آئندہ کیا ہو گا؟
دوسری جانب دو علاقائی عسکری ماہرین نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ حماس کا مسلح ونگ القسام بریگیڈ اسرائیل پر حملہ آور ہونے کے لیے متحرک ہو گیا ہے جس نے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں اور دھماکہ خیز آلات نصب کر دیے ہیں۔
امریکی ذرائع کے حوالے سے رائٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ پرامید نہیں ہے کہ اسرائیل حماس کو مکمل طورپر تباہ کر سکتا ہے البتہ امکان ہے کہ اسرائیل چاہے گا کہ وہ غزہ کے کسی علاقے کا کنٹرول حاصل کر لے یا اس پر دوبارہ قبضہ کر لے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی فورسز حماس کے زیادہ سے زیادہ افراد کو قتل کر دیں یا انہیں پکڑ لیں۔ حماس کے زیرِ زمین خفیہ ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور ان کی راکٹ بنانے کی صلاحیت کو نقصان پہنچانے کے بعد اسرائیل فتح کا اعلان کر کے جنگ سے نکل سکتا ہے۔
دوسری جانب یہ خدشات بھی ہیں کہ غزہ کی جنگ خطے سے باہر نکل سکتی ہے اور لبنان میں موجود ملیشیا حزب اللہ اور ایران حماس کے حق میں نئے محاذ کھول سکتے ہیں۔
ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان اسرائیل کو یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر اس نے غزہ میں زمینی کارروائی کی تو ممکنہ طور پر ردِ عمل دیا جائے گا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان اس سے قبل بھی تین بار 2008، 2012 اور 2014 میں ہلاکت خیز جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان میں سے دو مرتبہ اسرائیل نے حماس کے خلاف زمینی کارروائی بھی کی۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں روس کی پیش کردہ قرارداد مسترد ہوچکی ہے جب کہ اقوامِ متحدہ نے فریقین پر جنگ بندی کے لئے زور دیا ہے ۔
یہ رپورٹ خبر رساں ادارے 'رائٹرز'کی معلومات پر مبنی ہے۔