نوبیل ایوارڈ کمیٹی نے جیکبس ڈوبوشٹ، یوکم فرینک اور رچرڈ ہینڈرسن کو کیمسٹری کے نوبیل انعام کا حق دار قرار دیا ہے۔ انہیں یہ انعام منجمد مالیکولز پر تحقیق کا زیادہ سادہ اور بہتر طریقہ دریافت کرنے پر دیا جا رہا ہے۔
نوبیل کمیٹی نے کہا ہے کہ انتہائی مختصر سالموں کی ساخت کی تصویر کشی کے ایک آسان اور بہتر طریقے کی دریافت کا سہرا ان تین بین الاقوامی سائنس دانوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے بائیو مالیکولز کی ساخت کے مطالعے کے لیے الیکٹران کی ایک شعاع کے ذریعے ان کی تھری ڈی تصویر حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس دریافت کے بعد اب سائنس دان بائیو مالیکولز کی حرکت کو منجمد کر کے اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جو کہ اس سے پہلے کبھی بھی ممکن نہیں تھا، جس سے زندگی سے متعلق کیمسٹری کو سمجھنے اور ادویات سازی میں مدد ملے گی۔
تصویر کشی کے اس انتہائی حساس طریقے کی دریافت سے مالیکولز کو اپنی قدرتی حالت میں دیکھنے اور پر کھنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
نوبیل کمیٹی نے کہا ہے کہ جب سائنس دانوں کو یہ شبہ ہوا کہ برازیل میں زیکا وائرس کی وباء نوزائیدہ بچوں کے دماغ کو نقصان پہنچانے کا سبب رہی ہے تو انہوں نے الیکٹران مائیکروسکوپی کے ذریعے اس وائرس کا مشاہدہ کیا۔
فرینک کو، جن کی عمر 77 سال ہے، اور وہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے پروفیسر ہیں، اس انعام کے بارے میں نوبیل کمیٹی نے سوتے میں جگا کر آگاہ کیا۔
یہ خبر سننے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر روز کئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ میرے پاس اس وقت کہنے کے لیے ماسوائے اس کے کوئی اور الفاظ نہیں ہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز اور شاندار خبر ہے۔
بیس ویں صدی کے پہلے نصف میں بائیو مالیکولز، مثلاً پروٹین، ڈی این اے اور آر این اے وغیرہ کو الیکٹران خورد بین میں زندہ حالت میں دیکھنا ممکن نہیں تھا کیونکہ الیکٹران کی تیز شعاع سے ان میں ٹوٹ پھوٹ ہو جاتی تھی اور اس کا مطالعه صرف اسی صورت ممکن تھا جب کہ وہ زندہ حالت میں نہ ہوں۔ لیکن اب منجمد طریقہ کار کی مدد سے انہیں زندہ حالت میں دیکھنا اور ان کے عمل کا جائزہ لینا ممکن ہو گیا ہے۔