پاکستان کے نامزد چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے از خود نوٹس کا اختیار وہاں استعمال ہوگا جہاں دوسرا حل موجود نہ ہو۔
جمعرات کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ کو بھی اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی؟ عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی؟ مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے، ترقیاتی فنڈز دینا یا صرف ٹرانسفر، پوسٹنگ کرنا نہیں۔
نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا کی گئی۔ ملک کی ترقی کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے امور چلانا ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور جمہوریت کی پائیداری کے لیے سویلین بالا دستی اور احتساب لازم و ملزوم ہیں۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ سویلین بالادستی اور جمہوریت کو غیر مستحکم کیے بغیر سویلین کا احتساب یقینی بنانے پر بات ہونی چاہیے۔
نامزد چیف جسٹس نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں اعلان کیا کہ وہ بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ میں بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں۔ تین ہزار جج 19 لاکھ مقدمات نہیں نمٹا سکتے۔ ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیرِ التوا مقدمات کے جلد تصفیے کی کوشش کی جائے گی۔ غیر ضروری التوا کو روکنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا۔
نامزد چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں۔ ہم کوشش کریں گے سول عدالتوں میں بھی جلد فیصلے ہوں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کون ہیں؟
جسٹس آصف سعید کھوسہ پاکستان کے 26 ویں چیف جسٹس ہوں گے جو جمعے کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور سب سے زیادہ فیصلے تحریر کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔
جج کے طور پر اٹھارہ سال کے عرصے میں انہوں نے 75 ہزار سے زائد مقدمات کا فیصلہ کیا جب کہ گزشتہ چار سال میں صرف سپریم کورٹ میں 11 ہزار اپیلوں کو نمٹایا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کو سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہینِ عدالت کیس سے شہرت ملی۔ انہوں نے پاناما کیس کے تاریخی فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا اور نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی۔
اسی کیس کے فیصلے میں جسٹس کھوسہ کے 'سیسیلین مافیا' اور 'گاڈ فادر' کے حوالے کافی عرصے تک پاکستان میں زیرِ بحث رہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ایک اور وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ فیصلے محفوظ کرنے کے بجائے عدالت میں فوری سناتے ہیں۔
سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ اور فصیح بخاری کی تقرریاں قانون کے مطابق نہ ہونے پر کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سنایا تھا جب کہ وہ 18 ویں ترمیم، 21 ویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کو آئینی قرار دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے۔
لیگی رہنما نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کا مجرم قرار دے کر ایک ماہ کی سزا، آسیہ بی بی اور ممتاز قادری کے مقدمات کا فیصلہ، سنگین غداری کیس میں سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر اور سابق وزیرِ قانون زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کا خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ جلد نمٹانے کا حکم بھی نئے چیف جسٹس نے دیا تھا۔