جنوبی کوریا کے ایک تحقیقاتی ادارے نے کہا ہے کہ چین نے شمالی کوریا سے بھاگ کر آنے والے پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کی اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کی ہے جس کے بعد اب پناہ گزینوں سے بہتر سلوک کیے جانے کی توقع ہے۔
سیول میں واقع 'نارتھ کوریا اسٹریٹیجی سینٹر' کے بانی ڈائریکٹر کانگ چل ہوان نے بدھ کو 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چینی حکام نے شمالی کوریا سے فرار ہو کر چین پہنچنے والے ایک خاندان کو جنوبی کوریا جانے کی اجازت دیدی ہے۔
پانچ افراد پر مشتمل یہ خاندان گزشتہ تین برسوں سے بیجنگ میں واقع جنوبی کوریا کے سفارت خانے میں مقیم تھا۔
'وائس آف امریکہ' کی جانب سے رابطہ کرنے پر جنوبی کوریا کے حکام نے بھی اس اطلاع کی تصدیق کی ہے۔
کنگ چل ہوان، جو خود بھی شمالی کوریا کے مفرور باشندے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ چین کے اس اقدام سے متعلق مزید معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو جنوبی کوریا جانے کی اجازت دینے کے چینی اقدام کا مقصد شمالی کوریا کے ساتھ اپنی ناراضی کا اظہار کرنا ہے۔
پیانگ یانگ نے رواں ماہ ایک بیلسٹک میزائل کے ذریعے موسمیاتی سیارہ خلا میں چھوڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ شمالی کوریا کا یہ اقدام اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی ہوگا اور اس سے واشنگٹن اور بیجنگ کی مہینوں طویل سفارت کاری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
چین ماضی میں شمالی کوریا سے فرار ہوکر اپنی سرزمین پر پہنچے والے افراد کو واپس ان کے ملک بھیجنے پر اصرار کرتا رہا ہے اور عالمی برادری اس کی اس پالیسی کی کڑی ناقد رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے واپس شمالی کوریا پہنچنے پر ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے جب کہ ان میں سے کئی موت کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔