عالمی بنکوں پر سائبر حملے، شمالی کوریا کے خلاف مبینہ شواہد

فائل فوٹو

سمانٹیک کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے سنٹرل بنک سے آٹھ کروڑ 10لاکھ ڈاالر چرانے کے لیے جو کمپیوٹر پروگرام استعمال کیا گیا وہی فلپائن اور ویت نام میں ایک بنک پر ہوئے سائبر حملے سے منسلک ہے۔

سائبر سکیورٹی سے متعلق ایک فرم سمانٹیک کو حال ہی میں کئی ایشیائی بنکوں پر ہوئے سائبر حملوں میں شمالی کوریا کے ملوث ہونے کے مبینہ شواہد ملے ہیں۔

سمانٹیک کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے سنٹرل بنک سے آٹھ کروڑ 10لاکھ ڈاالر چرانے کے لیے جو کمپیوٹر پروگرام استعمال کیا گیا وہی فلپائن اور ویت نام میں ایک بنک پر ہوئے حملے سے منسلک ہے۔

یہ پہلا واقعہ ہو سکتا ہے جب ایک ملک نے ایک نقصان دہ کوڈ کو استعمال کر کے کسی دوسری ملک سے رقم چوری کی۔

سکیورٹی کے امور کی تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بار بھی سائبر حملوں کے لیے وہی سافٹ ویر پروگرام استعمال کیا گیا جو ماضی میں "لازارس" نامی گروپ نے استعمال کیا تھا۔

یہ گروپ کئی سائبر حملوں میں ملوث رہا ہے جن کے اہداف کا زیادہ تر محور 2009 سے امریکہ اور جنوبی کوریا میں تھا۔ ان میں 2014 میں سونی پکچرز پر ہونے والا سائبر حملہ بھی شامل ہے جس کا الزام امریکہ کے تحقیقاتی ادارے "ایف بی آئی" نے شمالی کوریا کی حکومت پر عائد کیا تھا۔ شمالی کوریا اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔

سمانٹیک کا کہنا ہے کہ ایکواڈور کے ایک بینک کو بھی اس طرح کے حملے میں فراڈ کے ذریعےایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس کے تحقیق کار برطانوی ڈیفنس کنٹریکٹر بی اے ای سٹم کے تحقیقاتی نتائج کی تائید کرتے ہیں جس میں بنگلہ دیش بنک ڈکیتی اور ویت نام اور ایکواڈور میں بنکوں پر ہوئے سائبر حملوں کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔