بین الاقوامی برادری کو تشویش ہے کہ اس طرح شمالی کوریا کو دوسرے بر اعظموں تک نیوکلیئر ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔
سیول —
ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ شمالی کوریا پیر کے روز تیسری بار اپنا ایک سیارہ خلا میں بھیجنے کی کوشش کرے گا۔
اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے تحت، اسے ایسا کرنے کی ممانعت ہے، کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی بیلسٹک میزائلوں جیسی ٹیکنالوجی ہی سمجھی جاتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو تشویش ہے کہ اس طرح شمالی کوریا کو دوسرے بر اعظموں تک نیوکلیئر ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔
گذشتہ دسمبر میں اپنے والد کے انتقال کے بعد ملک کے سربراہ بننے کے بعد سے اب تک کم جونگ اُن اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔
یونسئی یونیورسٹی کے پروفیسر مون چُنگ اِن کہتے ہیں کہ اگر پیانگ یانگ اپنے حریف جنوبی کوریا کو خلا میں شکست دے دے، تو اس طرح نوجوان لیڈر کم جونگ اُن کی ساکھ میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
’’اگر شمالی کوریا سیٹلائٹ کو مدار میں پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو شمالی کوریا کو ایک طرح سے سائنسی میدان میں فتح حاصل ہو جائے گی اور اس طرح شمالی کوریا کے لیڈر کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
شمالی کوریا کے سیارہ مدار میں بھیجنے کا زمانہ وہی ہے جو جاپان اور جنوبی کوریا میں اہم انتخابات کا ہے۔ جاپان میں 16 دسمبر کو اور جنوبی کوریا میں 19 دسمبر کو انتخاب ہوں گے۔ اگرچہ شمالی کوریا یقیناً یہ چاہے گا کہ دونوں ملکوں میں قدامت پسندوں کی کارکردگی خراب رہے، لیکن شمالی کوریا کے سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے سے انتخابات میں ان امیدواروں کی فتح کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
پروفیسر مون چُنگ اِن کہتے ہیں ’’اسے دور فاصلے کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جنوبی کوریا، شمال مشرقی ایشیا، بلکہ امریکہ تک کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں، جنوبی کوریا میں حزبِ اختلاف کی پارٹی کے اس امیدوار کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو شمالی کوریا کے ساتھ رابطے اور مذاکرات کے حامی ہیں۔ لیکن مجموعی طور سے، میں یہ کہوں گا کہ شمالی کوریا کی طرف سے سٹلائٹ لانچ کیے جانے سے ، حکمراں پارٹی کے امیدوار کو مدد ملے گی۔‘‘
اگر یہ راکٹ اپنے راستے سے ہٹ جاتا ہے اور اس کے زمین پر گرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے تو جنوبی کوریا اور جاپان کی فوجوں نے اس راکٹ کو پرواز کے دوران ہی روکنے کے انتظامات کر رکھے ہیں۔
سیٹلائٹ لانچ کرنے پر توقع ہے کہ تعزیری کارروائی سفارتی حلقوں کی طرف سے ہو گی، نہ کہ فوجی اقدام کے ذریعے۔
سفارتکار اس کارروائی کے بارے میں بات چیت کرتے رہے ہیں، خاص طور سے امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے سفارتکار جن کی اس ہفتے سول اور واشنگٹن میں میٹنگز ہوئی ہیں۔
جاپانی سفارتکار شنسوکی سوگی یاما کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اب بھی شمالی کوریا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنے سیٹلائٹ لانچ کرنے کے منصوبے کو ترک کردے ۔
’’ یہ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑنے سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں کی واضح خلاف ورزی ہو گی۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے’’تینوں ملکوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ اگر شمالی کوریا باز نہیں آتا اور سیٹلائٹ لانچ کر دیتا ہے، تو ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہیں گے کہ وہ کارروائی کرے۔ لیکن میں اس وقت یہ بتانے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ اقدام کیا ہو سکتا ہے۔‘‘
شائع شدہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اقدام میں شمالی کوریا کے بین الاقوامی بنک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا شامل ہو گا، جس کے نتیجے میں یہ غریب اور باقی دنیا سے الگ تھلگ ملک، باقی دنیا سے اور زیادہ کٹ کر رہ جائے گا۔
اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے تحت، اسے ایسا کرنے کی ممانعت ہے، کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی بیلسٹک میزائلوں جیسی ٹیکنالوجی ہی سمجھی جاتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو تشویش ہے کہ اس طرح شمالی کوریا کو دوسرے بر اعظموں تک نیوکلیئر ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔
گذشتہ دسمبر میں اپنے والد کے انتقال کے بعد ملک کے سربراہ بننے کے بعد سے اب تک کم جونگ اُن اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔
یونسئی یونیورسٹی کے پروفیسر مون چُنگ اِن کہتے ہیں کہ اگر پیانگ یانگ اپنے حریف جنوبی کوریا کو خلا میں شکست دے دے، تو اس طرح نوجوان لیڈر کم جونگ اُن کی ساکھ میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
’’اگر شمالی کوریا سیٹلائٹ کو مدار میں پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو شمالی کوریا کو ایک طرح سے سائنسی میدان میں فتح حاصل ہو جائے گی اور اس طرح شمالی کوریا کے لیڈر کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
شمالی کوریا کے سیارہ مدار میں بھیجنے کا زمانہ وہی ہے جو جاپان اور جنوبی کوریا میں اہم انتخابات کا ہے۔ جاپان میں 16 دسمبر کو اور جنوبی کوریا میں 19 دسمبر کو انتخاب ہوں گے۔ اگرچہ شمالی کوریا یقیناً یہ چاہے گا کہ دونوں ملکوں میں قدامت پسندوں کی کارکردگی خراب رہے، لیکن شمالی کوریا کے سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے سے انتخابات میں ان امیدواروں کی فتح کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
پروفیسر مون چُنگ اِن کہتے ہیں ’’اسے دور فاصلے کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جنوبی کوریا، شمال مشرقی ایشیا، بلکہ امریکہ تک کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں، جنوبی کوریا میں حزبِ اختلاف کی پارٹی کے اس امیدوار کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو شمالی کوریا کے ساتھ رابطے اور مذاکرات کے حامی ہیں۔ لیکن مجموعی طور سے، میں یہ کہوں گا کہ شمالی کوریا کی طرف سے سٹلائٹ لانچ کیے جانے سے ، حکمراں پارٹی کے امیدوار کو مدد ملے گی۔‘‘
اگر یہ راکٹ اپنے راستے سے ہٹ جاتا ہے اور اس کے زمین پر گرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے تو جنوبی کوریا اور جاپان کی فوجوں نے اس راکٹ کو پرواز کے دوران ہی روکنے کے انتظامات کر رکھے ہیں۔
سیٹلائٹ لانچ کرنے پر توقع ہے کہ تعزیری کارروائی سفارتی حلقوں کی طرف سے ہو گی، نہ کہ فوجی اقدام کے ذریعے۔
سفارتکار اس کارروائی کے بارے میں بات چیت کرتے رہے ہیں، خاص طور سے امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے سفارتکار جن کی اس ہفتے سول اور واشنگٹن میں میٹنگز ہوئی ہیں۔
جاپانی سفارتکار شنسوکی سوگی یاما کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اب بھی شمالی کوریا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنے سیٹلائٹ لانچ کرنے کے منصوبے کو ترک کردے ۔
’’ یہ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑنے سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں کی واضح خلاف ورزی ہو گی۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے’’تینوں ملکوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا ہے کہ اگر شمالی کوریا باز نہیں آتا اور سیٹلائٹ لانچ کر دیتا ہے، تو ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہیں گے کہ وہ کارروائی کرے۔ لیکن میں اس وقت یہ بتانے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ اقدام کیا ہو سکتا ہے۔‘‘
شائع شدہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اقدام میں شمالی کوریا کے بین الاقوامی بنک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا شامل ہو گا، جس کے نتیجے میں یہ غریب اور باقی دنیا سے الگ تھلگ ملک، باقی دنیا سے اور زیادہ کٹ کر رہ جائے گا۔