شمالی کوریا کی جانب سے اس میزائل کی لانچنگ پر جو اس کے بقول ایک بین البر اعظمی میزائل تھا، دنیا بھر میں تشویش اور مذمت کا اظہار کیا گیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس لانچنگ کا مطلب یہ ہے کہ اب شمالی کوریا کے پاس ایک ایسا میزائل ہے جو امریکہ تک پہنچ سکتا ہے، لیکن اس تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیانگ یانگ نے جوہری ہتھیار وں کی تیاری کی صلاحیت کے حصول کی اپنی کوششوں میں ایک انتہائی اہم پیش رفت کر لی ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے اس پیش رفت پر امریکہ کی تشویش میں اب روس اور چین بھی شامل ہو رہے ہیں۔
منگل کے روز ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پوٹن اور چینی صدر زی جن پنگ نے شمالی کوریا کے خلاف اپنا اتحاد مضبوط کرنے کا عہد کیا جس کی سر کشی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کا کہنا تھا کہ ہم روس کے مرحلہ وار پروگرام اور ڈیمو کریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا، کی جوہری سرگرمی کو اس وقت منجمد کرنے کی چینی تجاویز کی بنیاد پر کوریائی مسئلے کے کسی حل کی تلاش کے لیے اپنی مشترکہ کوشش کے ساتھ ساتھ امریکہ اور جنوبی کوریا کی وسیع مشترکہ فوجی مشقوں میں بھر پور اضافے پر متفق ہو گئے ہیں ۔
شمالی کوریا کا دعویٰ ہے کہ اس کا تازہ ترین تجربہ ایک آئی سی بی ایم یا بین البر اعظمی میزائل کا تھا ۔ یہ میزائل جاپان کے سمندر میں گرا تھا اور اس ہتھیار کی أصل صلاحیتں ابھی تک واضح نہیں ہوئی ہیں۔ میزائل کے تجربے نے، جو اس سال کیا جانے والا گیارھواں تجربہ تھا، ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ الگ تھلگ ملک ایک ایسا ہتھیار تیار کرنے کے قریب ہو جو امریکہ تک پہنچنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔
پیر کی رات صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پر لکھا کہ شمالی کوریا نے ابھی ابھی ایک اور میزائل لانچ کیا ہے اور انہوں نے شمالی کوریا کے لیڈر کم یانگ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس شخص کے پاس اپنی زندگی میں کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے۔
جمعے کے روز وہائٹ ہاؤس میں جنوبی کوریا کےصدر مون جے ان کےساتھ کھڑے ہو کر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ اپنا صبر وتحمل ختم کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کی حکومت کے ساتھ اسٹرٹیجک تحمل کا دور ناکام ہو چکا ہے ۔ یہ بہت عرصے تک رہا اور یہ ناکام رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ وہ تحمل اب ختم ہو چکا ہے۔
شمالی کوریا کا مسئلہ امکان ہے کہ اس وقت اس وقت ایجنڈے میں سر فہرست ہو گا جب اس ہفتے کے آخر میں مسٹر پوٹن، مسٹر زی اور گروپ 20 کے دوسرے راہنما جرمنی کے شہر ہمبرگ میں امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کریں گے۔