شمالی کوریا نے منگل کو بیلسٹک میزائل کا ایک اور تجربہ کیا ہے جو پانچ برسوں میں پہلی بار جاپانی فضائی حدود سے گزر کر سمندر میں جا گرا۔ اس کے باعث شمالی جاپان میں شہریوں کو محفوظ مقامات پر جانے کی وارننگ کے علاوہ ٹرین آپریشنز بھی جزوی طور پر معطل کر دیے گئے۔
جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے اس سے قبل 2017 میں میزائل ٹیسٹنگ کے لیے یہ روٹ اختیار کیا تھا جس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نے جاپان کی فضائی حدود میں 4600 کلومیٹر تک پرواز کی اور پھر سمندر میں گر گیا۔اس سے قبل شمالی کوریا ایسے میزائل تجربات کے لیے فضا میں مزید اُونچائی والا راستہ اختیار کرتا ہے، تاکہ ہمسایہ ملکوں کی فضائی حدود سے بچا جا سکے۔
امریکہ نے شمالی کوریا کے اس میزائل تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے جاپان پر "طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل" کی لانچنگ کے "خطرناک اور غیرذمہ دارانہ فیصلے" کی سخت مذمت کرتا ہے۔"
امریکی حکام کے مطابق "یہ کارروائی شمالی کوریا کی جانب سےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی حفاظتی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔"
جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ شمالی کوریا کا یہ ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے اور میں اس کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔
شمالی کوریا نے یہ میزائل تجزیہ ایسے وقت میں کیا ہے، جب خطے میں امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کی فوجی مشقیں جاری ہیں جن میں امریکی بحری بیڑے نے بھی حصہ لیا جو 2017 کے بعد پہلی مرتبہ جنوبی کوریا پہنچا تھا۔
جنوبی کوریا کے چیفس آف اسٹاف نے خبردار کیا کہ شمالی کوریا کی جانب سے میزائلوں کی بار بار کی لانچنگ اسے بین الاقوامی طور پر مزید الگ تھلگ کر دے گی اور سول اور واشنگٹن کو مزاحمت کی اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے پر مجبور کر دے گی ۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یئول نے کہا کہ شمالی کوریا کی غیر ذمہ دارانہ جوہری اشتعال انگیزیوں پر جنوبی کوریا اور وسیع تر بین ا لاقوامی برادری کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آئے گا۔
SEE ALSO: شمالی کوریا کا پانچ برس کے دوران سب سے بڑا میزائل تجربہجنوبی کوریا اور جاپان کے اندازوں کے مطابق میزائل جاپان پر سے گزرتا ہوا شمالی جاپانی ساحل سے تقریباً 3200 کلو میٹر دور سمندر میں گرا اور اس سے جاپانی طیاروں اور بحری جہازوں کو نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
جنوبی کوریا اور جاپان دونوں نے لانچ پر گفتگو کے لیے قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس ترتیب دیے۔ امریکہ نے کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے جنوبی کوریا اور جاپانی ہم منصبوں سے ان کے مناسب اور مضبوط ردعمل پر مشاورت کی ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایڈرین واٹسن نے ایک بیان میں کہا، "امریکہ شمالی کوریا کی جانب سے اپنے ممنوعہ بیلسٹک میزائل اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے اتحادیوں اور اقوام متحدہ کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اپنی کوششیں جاری رکھےگا۔
منگل کی لانچنگ ، شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ دس روز میں ہتھیاروں کی آزمائش کا پانچواں مرحلہ تھا جسے بظاہر جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان فوجی مشقوں کو گزشتہ ہفتے جاپان سمیت ، اتحادیوں کے درمیان دوسری تربیتی مشقوں پر ایک رد عمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
گزشتہ چار مراحل میں داغے جانےوالے میزائل تھوڑے فاصلے تک مارکرنے والے میزائل تھے اور وہ جزیرہ نما کوریا اور جاپان کے درمیان واقع پانیوں میں گرے تھے ۔ وہ میزائل جنوبی کوریا کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
اس رپورٹ کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔