شمالی کوریا نے اتوار کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایک اور بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جسے 2017 کے بعد سب سے طاقت ور میزائل تجربہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس میزائل تجربے کو بعض ماہرین اقوامِ متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا پر مزید میزائل تجربے نہ کرنے کی پابندی کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
جنوبی کوریا اور جاپان کے فوجی حکام کے مطابق یہ میزائل اتوار کی صبح شمالی کوریا کے مشرقی ساحل سے داغا گیا جو دو ہزار کلو میٹر کی بلندی تک پہنچا اور 800 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سمندر میں گر گیا۔
امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کی جانب سے نئے میزائل تجربے کی مذمت کی ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق میزائل کی مار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے 2017 کے بعد کیا جانے والا یہ سب سے بڑا میزائل تجربہ تھا۔
اس سے قبل اگست 2017 میں شمالی کوریا نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا جو جاپان کے اُوپر سے گزرا تھا۔ شمالی کوریا نے2017 میں ہی بین البراعظمی میزائل کا بھی تجربہ کیا تھا جسے اس کی صلاحیت کا اظہار سمجھا گیا تھا کہ اس کے میزائل امریکی سرزمین تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
اتوار کا میزائل تجربہ شمالی کوریا کی جانب سے رواں برس کیا گیا ساتواں تجربہ تھا ۔ تواتر کے ساتھ ان میزائل تجربات کو بائیڈن انتظامیہ کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش سمجھا جا رہا ہے۔
کرونا وبا سے متعلقہ مشکلات کی وجہ سے امریکہ اور شمالی کوریا کے جوہری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جب کہ بعض ماہرین کے مطابق امریکی پابندیوں کی وجہ سے شمالی کوریا کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ لہذٰا شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن چاہتے ہیں کہ امریکہ یہ پابندیاں ہٹا دے۔
شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے بعد جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا مؤقف ہے کہ شمالی کوریا کا یہ میزائل تجربہ دنیا کے ساتھ کیے گئے اس کے وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا یہ میزائل تجربہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور اس نے علاقائی امن کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس سےقبل 20 جنوری کو شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کی سربراہی میں شمالی کوریا کی اعلٰی قیادت کا ایک اہم اجلاس ہوا تھا جس میں درمیانے اور طویل عرصے تک مار کرنے والے میزائل تجربات پر خود ساختہ پابندی ہٹانے کی دھمکی دی گئی تھی۔
شمالی کوریا نے 2018 میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے پیشِ نظر یہ میزائل تجربات نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔