شمالی وزیرستان میں بکا خیل کے مقام پر مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے دو افراد کے ہلاک اور 11 افراد کے زخمی ہونے کے خلاف مقامی قبائل کا دھرنا جاری ہے۔
شمالی وزیرستان میں ڈسٹرکٹ اسپتال کے سامنے جاری اس دھرنے میں صرف شمالی وزیرستان ہی نہیں بلکہ ملحقہ ایجنسیز کے عوام بھی شریک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق، رات گئے بھی ہزاروں افراد دھرنے کے مقام پر موجود تھے۔
ہفتے کے روز دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کے لیے مقامی انتظامیہ نے رابطہ کیا جس کے بعد 11 مشیران پر مشتمل مذاکراتی ٹیم نے انتظامیہ سے بات چیت کی۔ تاہم،بتایا جاتا ہے کہ ''یہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی''۔
رکن قومی اسمبلی محسن جاوید بھی ان مذاکرات میں شریک ہیں اور دوران مذاکرات وہ دھرنا مظاہرین کے سامنے آئے اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم نے صرف ایک ہی مطالبہ کیا ہے کہ اس قتل عام کے ذمہ داروں کا کورٹ مارشل کیا جائے، جس پر مقامی انتظامیہ نے آگاہ کیا ہے کہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں اور اس کا فیصلہ فوج نے کرنا ہے۔'' محسن جاوید کا کہنا تھا کہ ''اس صورتحال میں ہمارا دھرنا جاری رہے گا''۔
اطلاعات کے مطابق، رکن قومی اسمبلی محسن جاوید اور علی وزیر اس دھرنے کے شرکا کے ساتھ موجود ہیں اور بھرپور اجتجاج کر رہے ہیں۔
محسن جاوید کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ''ہمارا پرامن اجتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کرلیا جاتا''۔
انہوں نے کہا ہے کہ ''سیکیورٹی اداروں نے دو نہتے افراد کا قتل کیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی چاہتے ہیں''، اور یہ کہ ''مظاہرین کا یہ پرامن اجتجاج جاری رہے گا''۔
شمالی وزیرستان میں جمعے کے روز ہمزونی کے علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا جب مقامی لوگ غیرقانونی گرفتاریوں کے خلاف اجتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مبینہ طور پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجہ میں ایک شخص ہلاک جب کہ 12 افراد زخمی ہوئے۔ بعد میں فائرنگ کا ایک اور زخمی دم توڑ گیا جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد دو ہوگئی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت بھی مظاہرین کا یہ دھرنا جاری ہے اور مقامی انتظامیہ مذاکرات کے ذریعے یہ دھرنا ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس واقعے کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن نے مری میں اپنے اجلاس کے بعد بھرپور مذمت کی اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔