شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنے بیٹے کی جانب سے سیکورٹی اہلکاروں پر عائد کیے جانے والے آبرو ریزی کی مبینہ کوشش کے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے حکام سے اپیل کی ہے کہ ان کی عصمت کا تحفظ کیا جائے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے خیسور سے تعلق رکھنے والی متاثرہ خاتون کی ایک ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر ہوئی ہے جس میں وہ پشتو زبان میں بات کر رہی ہیں۔
متاثرہ خاتون کے ہمراہ ویڈیو میں ان کا کم سن بیٹا حیات خان بھی موجود ہے جس نے گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو میں شمالی وزیرستان میں تعینات سکیورٹی اہلکاروں پر اپنے گھر میں گھسنے اور کئی کئی گھنٹوں تک موجود رہنے کا الزام لگایا تھا۔
بچے نے بتایا تھا کہ اس کے والد اور بھائی گزشتہ چار ماہ سے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں لیکن اس کے باوجود سکیورٹی اہلکار بارہا ان کے گھر میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرچکے ہیں۔
نئی ویڈیو میں متاثرہ خاتون کو حیات خان کے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں خاتون الزام لگا رہی ہیں کہ کئی مرتبہ سکیورٹی اہلکار ان کے گھر میں رات گزارنے کی غرض سے گھس چکے ہیں لیکن مزاحمت اور انکار کے باعث انہیں واپس جانا پڑا۔
خاتون نے کہا ہے کہ اُنھیں اپنی عزت کے بدلے اپنے شوہر اور بیٹے کی رہائی نہیں چاہیے اور ان کی اپیل ہے کہ ان کی عصمت کا تحفظ کیا جائے۔
خدشہ ہے کہ خاتون کی جانب سے الزامات کی تصدیق کے بعد اس معاملے پر احتجاج مزید شدت اختیار کرجائے گا۔
گزشتہ ہفتے خاتون کے کم سن بیٹے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے کارکنوں نے کئی شہروں میں اس معاملے پر احتجاج کیا تھا اور حکومت سے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس معاملے کی گونج پارلیمان میں بھی سنائی دی تھی جہاں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ارکان نے اس پر حکومت سے وضاحت مانگی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی سینیٹر ستارہ ایاز اور جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ جب کہ پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن مفتی عبدالشکور نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھایا ہے اور حکومت سے اس کا ازالہ کرنے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قدم اُٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سینیٹر ستارہ ایاز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ مسئلہ صرف شمالی وزیرستان تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان سے بھی اس قسم کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں جو مکمل طور پر رکنے چاہئیں۔
سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ اُنہوں نے سینیٹ میں خیسور کے واقعے کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی جس کے بعد اس واقعے کو مزید تحقیقات کے لیے ایوان کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما محسن داوڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے حکومت کو اس معاملے پر کسی کارروائی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے رکھی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت کوئی فیصلہ نہ کر سکی تو پھر پی ٹی ایم کے لوگ مشاورت کے ساتھ آئندہ کے لائحۂ عمل کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ جمعے کو پشاور میں ایک غیر رسمی اجلاس میں اس مسئلے ہر بات چیت ہوئی تھی مگر ابھی تک اس پر کسی کارروائی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
شمالی وزیرستان کے گاؤں خیسور میں سیکورٹی اہلکاروں کے ایک گھر میں زبردستی گھسنے کے واقعے پر حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے علاوہ حزبِ اختلاف میں شامل دو بڑی جماعتیں - پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھی ابھی تک خاموش ہیں۔