قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر ایک گھر میں زبردستی گھسنے کے بارے میں ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد جہاں پشتون تحفظ تحریک نے احتجاج کیا وہیں صوبائی حکومت نے ان الزامات کو گمراہ کن قرار دیا۔
ایک روز قبل شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں خیسور سے تعلق رکھنے والے لڑکے حیات خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پشتون تحفظ تحریک کے مقامی رہنماؤں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے والد اور بھائی کو چار مہینے قبل سکیورٹی اہلکاروں نے حراست میں لیا مگر ان کی گرفتاری کے بعد سکیورٹی اہلکار اب زبردستی ان کے گھر میں گھستے ہیں اور کئی کئی گھنٹوں تک موجود رہتے ہیں۔ اُنہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ سکیورٹی اہلکاروں کو ان کے گھر میں گھسنے سے منع کرے۔
گو کہ سرکاری طور پر ان الزام کے ردعمل میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فوج اور دیگر ادارے شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں کے قیام امن اور ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور بغیر کسی تصدیق کے ان پر الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیئے۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ اس قسم کے الزامات لگانے کا مقصد عوام کو گمراہ اور حکومتی اقدامات کو سبوتاژ کرنا ہے۔
حیات خان کے چچا ملک نور رحمان نے تصدیق کی کہ ان کا بھائی اور ایک بھتیجا سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہے لیکن سکیورٹی فورسز کے گھر میں گھسنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی اہلکاروں کے مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات سے مطمئن ہیں اور ایک بار سکیورٹی اہلکاروں نے ان کی موجودگی میں ان کے بھائی کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
پشتون تحریک کا مظاہرہ
حیات خان کے ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر سکیورٹی اہلکاروں اور حکومت کے خلاف سحت ردعمل سامنے آیا ہے جب کہ پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں نے شمالی وزیرستان میں متاثرہ لڑکے سے ملنے اور مظاہرہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور کارکن اتوار کے روز بنوں شہر پہنچ چکے ہیں جہاں سے وہ جلوس کی شکل میں شمالی وزیرستان جائیں گے۔
ادھر وزیرستان اسٹوڈنٹس سوسائٹی کی اپیل پر پشاور پریس کلب کے سامنے مختلف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء نے مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں چند خواتین نے بھی شرکت کی۔
وزیرستان سٹوڈنٹس سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل جمشید وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف طویل آپریشن کرایا گیا جس میں مقامی آبادی کو بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا لیکن پاکستان کی سالمیت کی خاطر لوگوں نے تمام تر تکالیف برداشت کیں لیکن حال ہی میں شمالی وزیرستان کے علاقے خیسور میں انتہائی شرمناک واقعہ سامنے آنے کے بعد لوگوں میں کافی تشویش پیدا ہو چکی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ کمسن بچے حیات کے سوشل میڈیا پر پیغام میں واضح طور کہا گیا کہ سکیورٹی اہلکار نے چار ماہ پہلے اُن کے والد اور بھائی کو شک کی بنیاد پر گرفتار کر چکے ہیں اور جب چادر اور چاردیواری کے تقدس کو بھی پامال کر دیا ہے۔ اُنہوں نے واقعہ کی تحقیقات کے لئے مقامی اتنظامیہ، علاقے کے عمائدین اور سکیورٹی اہلکاروں پر مشتمل ایک بااختیار کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔
پختونوں کو درپیش سکیورٹی اور انتظامی مسائل کے حل کے نعرے پر قائم پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ دہشت گردوں اور انتہاپسندی کی بنیاد پر پختونوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اب بھی کثیر تعداد میں مختلف علاقوں سے سیکڑوں لوگوں کو بغیر کسی جرم کے سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہیں۔