یورپی ملک ناروے کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے اوسلو میں تین روزہ مذاکرات ہوں گے جن میں طالبان کے نمائندے، افغانستان کی سول سوسائٹی کے افراد اور متعدد دیگر ملکوں کے حکام افغانستان میں جاری المیے اور انسانی حقوق پر بات چیت کریں گے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دفتر کے مطابق اتوار سے شروع ہونے والے مذاکرات میں وہ طالبان کی نمائندگی کریں گے۔
طالبان کے ایک ترجمان بلال کریمی کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں امریکی سفارت کاروں، یورپی یونین کے مندوبین اور افغان شخصیات کے مابین ملاقاتیں اور بات چیت ہو گی۔
رپورٹس کے مطابق برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے حکام ان مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
ناروے کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اوسلو میں ہونے والے مذاکرات، طالبان کی حکومت کو قانونی حیثیت دینے یا تسلیم کرنے کے لیے منعقد نہیں کیے جا رہے۔
تاہم ناروے کی وزیر خارجہ نے زور دیا کہ طالبان کے حکام کے ساتھ مذاکرات کا مقصد افغان عوام کی مدد کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال سے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہیں جہاں لاکھوں لوگ انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھاکہ سیاسی صورت حال کو اس سے بد تر انسانی تباہی کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے زور دیا کہ وہ طالبان سے اپنی توقعات کے بارے میں واضح کریں گے۔ خاص طور پر ان کے بقول لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے معاشرے میں کردار ادا کرنے کے بارے میں بات ہو گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال اگست میں امریکی اور اتحادی فورسز کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اس تبدیلی کے بعد امداد پر انحصار کرنے والے ملک افغانستان کی بین الاقوامی امداد منجمند کر دی گئی تھی اور امریکہ نے طالبان کی لگ بھگ نو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے اثاثوں تک رسائی روک دی تھی جن کی اکثریت امریکی فیڈرل اکاؤنٹس میں موجود ہے۔
بین الاقوامی ڈونرز نے طالبان سے مشترکہ حکومت قیام کرنے کا مطالبہ کرنے کے علاوہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے کہا تھا تا کہ ان کی امداد بحال کی جا سکے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد رواں ہفتے تک افغانستان میں پانچ لاکھ افراد بے روز گار ہو چکے ہیں جب کہ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار رواں سال کے وسط تک نو لاکھ تک جا سکتے ہیں۔
افغانستان میں متعدد خواتین ورکرز کو اپنی نوکریوں پر جانے کی اجازت نہیں ہے جب کہ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول اب تک بند ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان حکام کا ماننا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق سے واقف ہیں تاہم انہیں اساتذہ کو تنخواہیں دینے اور خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی کے لیے فنڈز درکار ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال مارچ میں نئے سال کے آغاز تک وہ تمام لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دے دیں گے۔